فارسی کا سب سے بڑا غزل گو شاعر حافظ شیرازی

فارسی زبان کو حافظ شیرازی کی شاعری پر بجا طور پر ناز ہے۔ وہ ایرانیوں کا نہایت مقبول شاعر ہے۔ عام فارسی دانوں کی نگاہ میں حافظ ایسا شاعر ہے جو عشق ومستی کی واردات کو بڑی دلآویزی سے بیان کرتا ہے اور عاشق کے سینے کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہے۔ صوفیوں نے حافظ کے کلام میں تصوف کے نکات تلاش کیے لیکن بہر کیف یہ ماننا پڑتا ہے کہ حافظ کوئی مولوی نہیں تھا بلکہ نہایت گرم دل اور تڑپتی ہوئی فطرت کا مالک تھا۔ اس کے اشعار آج بھی اہلِ دل کو تڑپا دیتے ہیں اور فارسی زبان اپنی وسعت کے باوجود حافظ جیسا شاعر پیدا نہ کر سکی۔ حافظ کی شاعری کا اصل میدان غزل ہے اور دیوانِ حافظ ہی وہ کتاب ہے جس پر اُن کی عظمت کا قصر کھڑا ہے۔ دیوانِ حافظ کے انگریزی اور جرمن زبان میں بھی ترجمے ہوئے ہیں اور متن بھی بڑے اہتمام سے یورپ میں چھاپے گے ہیں۔

حافظ کو ایران سے بے پناہ محبت تھی۔ علاوہ ازیں وہ طبیعت کے اعتبار سے بھی خلوت پسند تھے۔ بارہا ہندوستان کے بادشاہوں اور امیروں نے انہیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دی لیکن حافظ نہ آئے۔ وہ ہمیشہ ان دعوتوں کو خوب صورتی سے ٹال دیتے تھے۔ حافظ کے مقبرے پر جو قطعۂ تاریخ درج ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ نے خاصی عمر پائی اور 791 ھج (1389ئ) میں انتقال کیا۔ دنیا میں جہاں کہیں فارسی زبان جاننے والے موجود ہیں و ہاں حافظ شیرازی کی غزل لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کر رہی ہے۔ حافظ کی غزل اپنی سادگی، رنگینی اور تاثیر کے اعتبار سے نظیر نہیں رکھتی۔ خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی غالباً 1300ء میں پیدا ہوئے۔ آغاز ہی سے شعر و تصوف کے مطالعے کا شوق رکھتے جو انہوں نے شیخ محمود عطار سے حاصل کیا۔

اس کے بعد کچھ عرصے تک وہ اپنے سرپرست حاجی قوام الدین کے قائم کردہ مدرسے میں تفسیر قرآن کی تعلیم دیتے رہے۔ انہوں نے’’ حافظ‘‘ تخلص اس لیے اختیار کیا کہ وہ قرآن مجید کے حافظ تھے۔ حافظ چونکہ فطرتاً بہت وسیع المشرب تھے اس لیے تنگ نظر اہلِ ظاہر کی صحبت ان کی طبع پر گراں گزری چنانچہ انہوں نے تصوف اور شاعری کی طرف اور زیادہ توجہ کی۔ ان کے رُفقا اِن اَشغال کو بلکل پسند نہ کرتے تھے۔ اِس کشمکش کا سراغ ان کے کلام میں بھی ملتا ہے کہ وہ شیخ، زاہد، واعِظ اور صوفی پر بے دردی سے طنز اور رندوں اور مے کشوں سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ 

 شیخ حسن    

Leave a comment