دلہن نے مہر میں قیمتی زیورات یا ساز و سامان کی بجائے سو کتابیں مانگ لیں

بھارتی ریاست کیرالہ میں دلہن نے اس وقت سب کو حیرت زدہ کر دیا جب اس نے اپنے ہونے والے خاوند سے مہر میں نقدی، جائیداد، قیمتی زیورات یا ساز و سامان کی بجائے ایک سو کتابیں مانگ لیں۔ دولہا دلہن نے یہ بات خود تک محدود رکھی تاہم ان کے کچھ دوستوں نے اسے سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا جس کے بعد یہ وائرل ہو گئی ہے۔ بھارتی میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق اعجاز حکیم اور اجنا نظام کا نکاح اکتوبر میں ہوا تھا، جس میں اجنا نے اعجاز سے ایک سو کتابوں کا مطالبہ کر ڈالا۔

اعجاز نے دلہن کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق کتابیں حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی تاہم وہ شادی کی رات تک 97 کتابیں ہی اکٹھی کر پائے۔  بھارتی میڈیا کے مطابق ان کتابوں میں قرآن، بائبل اور گیتا کے علاوہ خالد حسینی اور موراکامی کے ناول شامل ہیں۔ ٹوئٹر پر گردش کرنے والی تصاویر میں سابق امریکی خاتونِ اول مشیل اوباما کی آپ بیتی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس جوڑے نے اپنے بیڈروم میں ایک بڑا شیلف لگا دیا ہے جہاں یہ کتابیں رکھی گئی ہیں۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

کتاب صرف پڑھنے کے لیے نہیں ہوتی

کتاب ایک بہترین دوست ہے۔ اگر آپ کتاب پڑھنے کے شوقین ہیں تو یہ کتاب آپ سے وفا کرتی رہے گی۔ پہلے تو کتاب آپ کو آپ کی خامیوں سے آگاہ کرے گی۔ پھر کتاب یہ بھی بتائے گی کہ اب ان خامیوں سے کیسے نکلنا ہے اور ہاں یہ کتاب خامیوں سے نکال کر خوبیوں والی راہ بھی دکھائے گی۔ اس لیے جس کا لگاؤ کتاب سے سب سے زیادہ ہو گا وہ اتنا ہی کامیاب اور خوبیوں سے سرشار ہو گا۔ آپ کے کچھ دوست آپ کو برے کاموں کے لیے استعمال کریں گے جبکہ کچھ اچھے کاموں کے لیے استعمال کریں گے۔ لیکن ایک اچھی کتاب آپ کو کبھی غلط سمت میں نہیں دھکیلے گی۔

ہم کروڑوں آبادی والے ملک میں بستے ہیں۔ یہاں کے باسی کتابوں سے کتنا تعلق رکھتے ہیں یہ جاننے کے لیے صرف ایک کتاب خانہ کا ایک دورہ کریں۔ معلوم ہو جائے گا کہ ہم کتنے شوقین ہیں کتابوں کے اوراق پلٹنے کے۔ کتب خانوں میں اب فرنٹ پر کتابوں کے بجائے کھلونے  رکھے جاتے ہیں اس لیے کہ کتابیں خریدنے والے کم ہوتے ہیں جبکہ ان کھلونوں کے خریدار زیادہ ہوتے ہیں۔ دنیا کے حقیقی کامیاب لوگ کتابیں ضرور پڑھتے ہیں۔ ان کے پاس وقت نہ بھی ہو پھر بھی وہ کتاب پڑھنے کے لیے وقت ضرور مقرر کرتے ہیں۔ اس مقرر کردہ وقت میں کوئی دوسرا کام نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کتاب ایک حقیقی دوست ہے جو کبھی دھوکہ نہیں دے گی۔

ایک مصنف جو کتاب لکھتا ہے اس میں اپنا سارا تجربہ و علم کا نچوڑ پیش کرتا ہے جو اس نے ساری زندگی کیا اور سیکھا۔ ہم اس کتاب کو چند ساعتوں میں پڑھ کر اس سے محظوظ ہو سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم اس کے لیے بھی ہمہ وقت تیار نہیں ہوتے۔ پہلے زمانے میں لوگ کتابیں پڑھنے کے لیے کئی کئی میلوں کا سفر پیدل طے کرتے تھے۔ لیکن آج کل زندگی اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ کتابیں پڑھنے کو وقت میسر نہیں۔ کتابیں نہیں بلکہ ایک کتاب بھی آج کے زمانے میں پڑھ لینا کوہ ہمالیہ عبور کرنے کے برابر ہے۔ آج کے دور میں اگر کسی سے کہا جائے کہ آپ کو دو آپشن دیتے ہیں

آپ ایک کتاب کا مطالعہ کرلیں یا پھر کوہ ہمالیہ کی چوٹی تک پیدل سفر کر لیں۔ تو وہ یقیناً دوسرے آپشن کو لے گا اور اس مشکل کو طے کرے گا۔ یہ اگرچہ ہو گا مشکل لیکن اسے سہل معلوم ہو گا کیونکہ آج کے زمانے میں کتاب پڑھنا بہت مشکل کام بن گیا ہے۔ کتابیں پڑھنے کا شوق کیسے پیدا ہو گا۔ اس کے لیے آپ کو کچھ کام کرنے پڑیں گے۔

پہلا کام
کتابیں پڑھنے کے لیے ایک وقت مقرر کر لیں چاہے روزانہ آدھا گھنٹہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جب وقت آئے گا تو کتابیں پڑھ لیں گے تو آپ یقیناً نہیں پڑھ پائیں گے۔ صرف خیالی پلاؤ کھاتے کھاتے وقت گزار دیں گے۔ اس وقت میں باقی تمام کاموں سے بیزار ہوکر صرف کتابیں پڑھیں۔

دوسرا کام
جو موضوعات آپ کو اچھے لگتے ہوں ان سے متعلقہ کتابیں پڑھیں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کتابیں پڑھنے کو شوق آپ کو ہو چلے گا اور یہ شوق آپ کو دوسرے موضوعات کی طرف بھی لے جانے میں معاون ہو گا۔ کتابیں پڑھنے سے آپ کو مطالعہ کا ذوق ملے گا اور یہ ذوق آپ کو اچھی کتابوں کی پہچان بھی کراتا رہے گا۔

تیسرا کام
مطالعہ کی ایک فہرست بنا لیں کہ آپ نے اس مہینے کونسی کتاب پڑھنی ہے یا اس سال میں کتنی کتابیں پڑھنی ہیں۔ پھر اپنے مطالعے کے ہدف کو پانے کی ہر ممکن جدو جہد کریں۔

چوتھا کام
جہاں بھی جانا ہو ساتھ کتاب ضرور لیکر جائیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ جب بھی تنہا ہوں گے تو آپ کو ساتھی مل جائے گا اور آپ تنہائی کا احساس کھو دیں گے۔ کہیں آپ کو وقت ضائع کرنے کا خدشہ ہو تو وہاں کتاب پڑھنا شروع کر دیں تو یہ آپ کو وقت کے ضیاع سے روکے گا۔ آپ نے جو پڑھا یا سمجھا اسے اپنی زندگی کا معمول بنا کر زندگی سے لطف اٹھائیں اور آئے روز زندگی کا نیا مزہ چکھتے رہیں۔ اگر آپ اپنے علم کو اپنے عمل کا حصہ نہیں بناتے تو صرف کتابیں چاٹنے سے آپ کو لطف نہیں ملے گا۔ کتاب صرف پڑھنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ جو پڑھ لیا ہے اس پر عمل کا نام کتاب ہے۔ کتاب کے الفاظ آپکے پیچھے خود بخود دوڑتے ہیں، آپ کے علم میں اضافہ کر کے آپ کے عمل میں درستگی پیدا کرتے ہیں۔ کتاب صرف پڑھنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ کتاب آپ کو شعور فراہم کرتی ہے۔ آپ کو ایک معتدل مزاج انسان بناتی ہے۔ آپ کی ذہنی یکسوئی میں اضافہ کرتی ہے۔ آپ کی سوچ کے زاویے بدلتی ہے۔ آپ کو زوال سے عروج تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

لقمان ہزاروی

پاکستان میں لائبریریوں کی حالت زار

انسان میں علم حاصل کرنے کی جستجو نے تخلیق کو جنم دیا ہے۔ انسان میں جاننے کی جستجو کی کوئی حدیں نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی یہ کبھی مطمئن ہوتی ہے۔ یہ جستجو کا سلسلہ انسان کی تخلیق سے اِس جدید دور تک جاری ہے۔ یہ صدیوں سے حاصل کی گئی قابلِ قدر اور بیش بہاعلم اور معلومات نے انسان کی بہت خدمت کی ہے۔ اِنسان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِن معلومات کو محفوظ کرنے کا بندوبست کیا۔ کاغذ کی ایجاد کے بعد علم اور معلومات دوسروں تک پہنچانے کے لیے کاغذ کا استعمال کیا گیا۔ ابتدائی دور میں دانا لوگوں کی طرف سے لکھے گئے ہزاروں مسودات مناسب محفوظ کرنے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہو گئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ انسان نے اِن مسودات کو کتابوں کی صورت میں اکٹھا کیا۔پھر اِس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اِن کتابوں کو جو کہ معلو مات کا ایک خزانہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اِن کو کس طرح ترتیب دیا جائے۔ لائبریریوں کا قیام علم اور معلومات کے خزانوں کو منظم اور محفوظ بنانے کے لیے عمل میں لایا گیا۔ یہ بات انسانوں کے لیے بہت اہمیت کی ہے کہ وہ اِن علم و حکمت اور معلومات کے خزانوں کو محفوظ کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کریں۔ تاکہ وہ اِس سے مستفید ہو سکیں۔ آ ج پوری دنیا میں لوگ جدید لائبریریوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔

لائبریریوں کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اِس میں جدت آتی جا رہی ہے۔ یہ جدید لائبریریاں اِس وقت طالب علموں کے لیے علم اور تحقیق کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اِس صدی کے آغاز سے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی وجہ سے معلومات کا ایک طوفان برپا ہو چکا ہے۔ اِس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال نے لائبریریوں کو بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق بہتر اور اپ گریڈ کر دیا ہے تاکہ نئے چیلنجز کا سامنا کیا جا سکے۔ اب کتابیں نہ صرف چھپائی کی صورت میں مہیا ہیں بلکہ ڈیجیٹل شکل میں بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ لائبریریاں نہ صرف ڈیجیٹل شکل میں موجود ہیں بلکہ یہ لائبریریاں آپس میں ایک نیٹ ورک کی صورت میں منسلک ہو گئی ہیں۔ اب آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں آپ پوری دینا میں موجود ڈیجیٹل لائبریریوں سے کسی بھی وقت منسلک ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں لائبریریوں کی صورتِ حال تعلیم کی صورتحال سے مختلف نہیں ہے۔تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً ساڑھے چار ہزار کے قریب لائبریریاں موجود ہیں۔ جن کی زبوں حالی کا ذکر ڈاکٹر ظہیر احمدبابر (ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز پنجاب) نے چغتائی پبلک لائبریری کی چوتھی سالگرہ کے موقع پر ملاقات میں کیا۔ ڈاکٹر ظہیر احمدبابر آج کل پاکستان میں لائبریریوں کی بحالی کی خاطر مصروفِ عمل ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی بات کریں تویہاں چھ مشہور لائبریریاں ہیں۔ جن کے ناموں میں قائداعظم پبلک لائبریری، ماڈل ٹائون پبلک لائبریری، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، پنجاب پبلک لائبریری، ڈیفنس پبلک لائبریری کمپلیکس اور چغتائی پبلک لائبریری شامل ہیں۔

ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اِن چھ لائبریریوں کے کل ممبر ز کی تعداد 117,448 ہے اور اِن لائبریریوں میں کل کتب کی تعداد صرف 478, 613 ہے۔ اِن تمام لائبریریوں میں روزانہ پڑھنے کے لئے آنے والوں کی تعداد صرف 2500 سے 3000 کے درمیان ہے۔ ڈاکٹر ظہیراحمد بابر نے بتایا کہ پنجاب میں کل 1033 لائبریریاں ہیں جن میں سے 550 کالجوں میں 155 یونیورسٹیوں میں 171 لوکل گورنمنٹ کے زیرِ انتظام اور 160 بلدیہ کے زیرِ انتظام چل رہی ہیں۔ ہمیں تعلیم و تحقیق کی خاطر لائبریریوں کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور آسان اور قابلِ رسائی تعلیم ہر فرد کا حق ہے۔

ڈاکٹر مریم چغتائی

امریکا کے کتب خانے

امریکہ پچاس ریاستوں پر مشتمل موجودہ دور کا ترقی یافتہ جمہوری ملک کہلاتا ہے۔ انگریزوں نے امریکہ میں اپنی آباد کاری کی ابتدا باقاعدہ طور پر 1607ء میں جسمین ٹاؤن سے شروع کر دی تھی۔ ہارورڈ یونیورسٹی لائبریری کا قیام آباد کاری کے 31 سا ل بعد عمل میں آیا۔ اس کتب خانہ کی بنیاد میسا چوسٹس کے ایک پادری جان ہارورڈ کے اس گراں قدر تحفہ سے ہوئی جو اس نے چار سو کتب اور کچھ نقدی کی شکل میں دیا تھا۔ اس قیمتی عطیہ کی وجہ سے ہی اس تعلیمی ادارہ کا نام ہارورڈ کہلایا۔ یہ درس گاہ جس شہر میں قائم ہوئی اس کا پرانا نام نیو ٹاؤن تھا مگر بعد میں انگلستان کے شہر کیمبرج کی مناسبت سے اس جگہ کا نام بھی کیمبرج رکھ دیا گیا۔ کتب خانے سے کتابیں جاری کرنے کے لیے چندہ برائے کتب خانہ مقرر کیا گیا۔ بینجمن فرینکلین نے امریکہ میں چندہ سے چلنے والی پہلی لائبریری کی بنیاد 1731ء میں رکھی جس کا نام لائبریری کمپنی آف فلاڈلفیا تھا۔

ممبر حضرات سے جو چندہ موصول ہوتا تھا اس سے کتب خانے کے لیے نئی کتابیں خریدی جاتی تھیں۔ اس طرح ممبر کتابیں اپنے نام جاری کروا کے گھروں پر مطالعہ کے لیے لے جا سکتے تھے۔ کمپنی کی وہ پرانی کتابیں ابھی تک محفوظ ہیں۔ اس طریقہ کار سے یہ فائدہ ہوا کہ امریکہ کی دوسری ریاستوں میں بھی بہت سی چندہ سے چلنے والی لائبریریاں قائم ہونے لگیں۔ امریکہ کی نو آبادی میں رہائش پذیر مشہور رہنماؤں نے اپنے ذاتی کتب خانے قائم کرنے شروع کر دیئے تھے۔ ولیم بیرڈ اور تھامسن جیفرسن کے کتب خانے اس سلسلے میں قابل ذکر ہیں۔ بعد میں تھامس جیفرسن کے ذاتی ذخیرہ کو 1815ء میں لائبریری آف کانگرس کے لیے خرید لیا گیا۔ بدقسمتی سے 1812ء میں جب لائبریری آف کانگریس میں آگ لگی تو جیفرسن کے ذخیرہ سے اس کو دوبارہ آراستہ کیا گیا۔

1846ء میں جب امریکہ میں سرکاری ٹیکسوں کی مدد سے عوامی کتب خانے قائم ہوئے تو اسمتھ سونین انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن (ڈی سی) میں کھولا گیاجس کا مقصد تحقیق اور تعلیم کے حصول میں مدد دینا تھا۔ اس ادارے نے ایک سروے کے نتیجے میں یونین کیٹلاگ تیار کیا۔ اس ادارے کا پہلا لائبریرین چالس کافن جیوٹ تھا جب کہ شکاگو پبلک لائبریری کا پہلا لائبریرین فریڈرک پول کو بنایا گیا۔ پول وہ شخص تھا جس نے اشاریہ کی ترتیب میں کئی اضافے کیے اور ’’پولز انڈیکس ٹو پیریاڈیکل لٹریچر‘‘ تیار کیا۔ یہ حوالہ کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ بعد میں اس میں مزید اضافے ہوتے رہے اور ہنوز اس کے ضمیمے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ملول ڈیوی امریکی کتب خانوں کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے امریکن لائبریری ایسوسی ایشن کی داغ بیل ڈالی۔ لائبریری جرنل جاری کیا اور اپنی شہرہ آفاق درجہ بندی کی ایک جامع اسکیم تیار کی۔

1881ء میں اینڈریو کارنیگی نے اپنا ذخیرہ عطیہ کرکے عوامی کتب خانوں کی تاریخ میں اپنے آپ کو امرکرلیا۔ اس نے 25 ہزار عوامی کتب خانے انگلش اسپیکنگ ممالک میں 1881ء تا 1919ء یعنی اپنے انتقال تک قائم کیے۔ ان میں سے 17 سو کتب خانے صرف امریکہ میں قائم کیے گئے۔ انیسویں صدی عیسوی کے دوران امریکہ میں کتب خانوں کے قیام اور خدمات میں انقلابی ترقی ہوئی۔ امریکہ میں ہر شہر اور قصبے میں عوامی کتب خانوں کا طویل سلسلہ جاری ہوگیا۔

اشرف علی

انسان تنہا کیوں ہوتا جا رہا ہے ؟

گئے وقتوں کی بات ہے شہر لاہور میں ادبی و ثقافتی روایات کا شہرہ پوری دنیا
میں تھا۔ لاہور کے چائے خانوں میں ادیبوں، دانشوروں، وکلاء اساتذہ کے گروپس بیٹھ کر آپس میں ملکی و بین الاقوامی حالات پر مباحثے کیا کرتے تھے۔ لاہور میں چائے خانوں کی بہتات تھی۔ ٹی ہائوس، کافی ہائوس، نگینہ بیکری، پرانی انارکلی کے لاتعداد ٹی سٹال ایسے تھے جہاں لوگ گروپوں کی شکل میں بیٹھ کر مختلف مسائل پر باتیں کیا کرتے تھے۔ یہی نہیں محلوں کے ڈیرے اور تھڑے بھی آباد ہوتے تھے۔ تھڑا کلچر لاہور شہر کا خاصہ تھا، بازاروں میں گھروں کے دروازے کے ساتھ ہی تھڑے بنے ہوئے ہوتے تھے جہاں شام کو لوگ جب دفتروں سے واپس آتے تھے وہاں بیٹھ کر خوش گپیاں کی جاتی تھیں۔ ایسے ہی چند خوشحال افراد نے اپنے گھروں کے باہر ڈیرے بھی بنائے ہوتے تھے جہاں احوال سیاست کے ساتھ ساتھ محلے دار ایک دوسرے کی خبر گیری بھی کرتے تھے.

بلکہ لاہور شہر کے بارے میں مشہور ہے یہاں کی سیاست اسی تھڑا کلچر سے شروع ہوتی تھی۔ لاہور کی سیاست شام 6 بجے کے بعد تھڑوں سے شروع ہوتی اور سیاسی تحریکوں کی شکل اختیار کر لیتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب سائنس نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی۔ صرف سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا دور تھا۔ موبائل فون کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ ایک لیٹربکس تھا جو ہر کسی کے گھر پر نہیں لگا ہوتا تھا۔ خط و کتابت کا عروج تھا کسی عزیز کو خط لکھنا اور پھر اس خط کے جواب کا انتظار کرنا درمیان میں جو دن آتے تھے انتظار کا رومانس جو انسانی دل دماغ پر ہوتا تھا اس کا اپنا ہی ایک مزہ تھا۔ لوگوں کے آپس میں رابطے تھے۔ شام کو بڑے کمرے میں سارا گھر اکٹھا ہو جاتا، واحد سرکاری TV پر رات آٹھ بجے سارا خاندان مل کر ڈرامہ دیکھتا تھا۔ وقفے کے دوران اس ڈرامے پر آپس میں بات ہوتی تھی۔
پھر جب فلم دیکھنے کا پروگرام بن جاتا تو سارا خاندان اور دوست مل کر سینما گھر فلم دیکھنے جاتے ایک قسم کی مشترکہ خاندانی تفریح کا ساماں ہوتا تھا۔ لاہور کے میلے کسی نے نہیں دیکھے آج کی نسل تو شاید ان میلوں ٹھیلوں کی رونق سے نا واقف ہے مگر پرانے لوگ جانتے ہیں شہر میں میلوں کے دوران کیسا سماں ہوتا تھا۔ ایک عجب قسم کی ثقافتی زندگی کا دور تھا اس شہر لاہور میں۔ مگر وقت نے کروٹ بدلی، سائنس کی نت نئی ایجادات آئی، وی سی آر اور سینما کا دور ختم ہو گیا۔ پہلے ڈش انٹینا اور کیبل سسٹم متعارف ہوا۔ موبائل فون انٹرنیٹ کی جدید ترین 3G ،4G ٹیکنالوجی آئی۔ جدیدیت نے سارا منظرنامہ ہی بدل دیا۔ ٹیلی ویژن کا تصور ہی بدل گیا۔ لوگ موبائل فون پر ڈرامے اور فلمیں دیکھنے لگ گئے ہر بندے کے پاس اپنا موبائل سوشل میڈیا کی آمد نے ایک نیا منظرنامہ بنا دیا ہے۔ وہ بحث مباحثے جو چائے خانوں ،چوپالوں اور تھڑوں پر ہوا کرتے تھے اب سوشل میڈیا یعنی فیس بک اور ٹویٹر پر ہوتے ہیں۔
ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے لیے واٹس اپ اور SMS کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کوئی بھی باشعور انسان جدیدیت کے خلاف نہیں ہوتا مگر ایک بات جس کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے جو سائنس نے انسانی زندگی کی تنہائی میں کہیں اضافہ تو نہیں کر دیا۔ اب ایک گھر میں بیٹھے ہوئے لوگ آپس میں رابطہ کرنے کے لیے موبائل فون کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے فیس بک کے ذریعے رابطہ کرتے ہیں۔ کیا انسان تنہائی کی طرف نہیں جا رہا ۔ آخر ایسا کیوں ہے ہمارے معاشرے نے جدید سائنس کی ترقی کو منفی انداز سے کیوں لیا ہے۔ یہ سب ایجادات مغرب سے آئی ہیں کیا وہاں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہ ایک بحث طلب سوال ہے مگر ہمیں یہاں مغرب کو چھوڑ کر اپنے سماج اپنے خطے کے معروضی حالات کی طرف دیکھنا ہو گا۔ ان سطور کو لکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جدید سائنس کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ بالکل نہیں ہمیں جدیدیت کو مثبت انداز سے لینا چاہیے۔ اپنی روایات کو ختم کرنا نہیں چاہیے انسانی تنہائی میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ 
انسانوں سے انسانوں کی جو جڑت ہے اس کو بالکل ختم نہیں ہونا چاہیے۔ مطالعے کی عادت ڈالیں۔ مطالعہ بحث مباحثے کو جنم دیتا ہے۔ اپنے کتب خانے آباد رکھیں، چائے خانوں اور تھڑوں کی محفلیں آباد رہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے رابطہ رکھیں۔ سماج میں مکالمے کا سفر کبھی نہیں روکنا چاہیے ، مکالمہ جمود کو توڑتا ہے۔ ایک دوسرے کو فتح نہیں کرنا صرف اپنی دلیل سے قائل کرنا ہے۔ اس کے لیے جدید سائنس سے بھی استفادہ اٹھانا ہے اور انسانی جڑت کے جو روایتی طریقے ہیں ان کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ہمیں انسانوں کو تنہا نہیں کرنا ایک سماجی مکالمے کی طرف جانا ہے۔
حسنین جمیل

شاہی کتب خانے

دور قدیم کے شاہی کتب خانے عام طور پر شاہی محل یا کسی مندر کا حصہ ہوتے تھے ان کو بادشاہ کی سرپرستی حاصل ہوتی تھی اور تمام اخراجات کتب خانہ بھی شاہی خزانے کو برداشت کرنا پڑتے تھے۔ چنانچہ ان میں رسائی بھی شاہی خاندان کے افراد یا امراء تک محدود تھی۔ قدیم کتب خانوں کی حیثیت محکمہ دستاویزات کی طرح تھی۔ اس میں خاندان شاہی کے حالات حکومت کے اخراجات کا ریکارڈ اور جنگی معاہدات وغیرہ سے متعلق کاغذات محفوظ رکھے جاتے تھے۔ لہذا ضرورت کے وقت بادشاہ یا وزراء یہاں حکومتی معاملات کے لیے آتے یا پھر شہزادے تفریح طبع اور ذوق مطالعہ کی تسکین کی خاطر چلے آتے تھے۔

ایسے حالات میں عوام کا گزران کتب خانوں میں دشوار تھا۔ عہد قدیم میں فراعنہ مصر کے کتب خانوں سے لے کر نینوا کے کتب خانے تک یہی حالات دیکھنے میں آتے تھے۔ برخلاف اس کے عباسیہ دور کے شاہی کتب خانوں میں بغداد کا بیت الحکمت بہت مشہور ہے یہ اگرچہ شاہی کتب خانہ تھا مگر قدیم کتب خانوں کی طرح محلات یا مندروں سے ملحق نہ تھا اس کی عمارت بالکل جدا اور کتب خانے کے لیے مخصوص تھی۔ بیت الحکمت میں خلیفہ و امراء کو مطالعہ کی جس طرح مراعات حاصل تھیں۔ اسی طرح ہر ایک پڑھے لکھے انسان کو یہاں داخلے کی عام اجازت تھی۔ یعنی یہ کتب خانے شاہی اخراجات سے چلتے اور شاہی سرپرستی میں ہونے کے باوجود عام کتب خانوں کی طرح خدمات انجام دیتے تھے۔ کہتے ہیں بیت الحکمت میں دس ہزار کتابیں مختلف موضوعات پر تھیں۔ ان میں بہت سی غیر زبانوں کی کتابوں کے تراجم بھی موجود تھے لہذا ہر فکر و خیال کا قاری خواہ غلام ہو یا آزاد یہاں سے استفادہ کر سکتا تھا۔

 ہارون رشید نے بیت الحکمت میں دو محکمے قائم کئے تھے۔ ایک کتابوں کی فراہمی کا اور دوسرا تصنیف و تالیف کا۔ ان شعبہ جات میں بلا لحاظ مذہب و ملت بڑے بڑے عالموں اور دانشوروں کو تحریر و تراجم کے لیے رکھا گیا تھا جبکہ قدیم کتب خانوں میں اس رواداری اور مساوات کا پتا نہیں چلتا۔ جانسن اپنی کتاب کمیونی کیشن میں اسکندریہ کے کتب خانے کی بابت لکھتا ہے کہ اس میں ایک غلام بھی آ کر کتابوں سے فیض حاصل کر سکتا تھا مگر یہ بات صرف کہی جا سکتی ہے ورنہ جس دور میں عوام کو آزادانہ حقوق حاصل نہ ہوں وہاں علماء اور غلام شاہی کتب خانوں سے استفادہ کر سکیں قیاس میں نہیں آتا۔ عباسیہ دور کے کتب خانوں کی تاریخ سے پتا چلتا ہے وہاں ان سلاطین کتب خانوں میں ہر کس و ناکس کو مطالعہ کی عام اجازت تھی۔

 (کتب اور کتب خانوں کی تاریخ سے انتخاب)  

مشہور لوگوں کے کتب خانے

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒء کا کتب خانہ دور غلاماں میں صوفیاء کرام کی وجہ
سے کتب خانوں میں اور ان کے قیام میں غیر معمولی دلچسپی لی جانے لگی تھی۔ ان بزرگوں کی خانقاہوں سے منسلک و ملحق جو کتب خانے تھے ان میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒء دہلوی کا کتب خانہ نہایت عمدہ تھا۔ اس کتب خانہ میں احیاء العلوم ’’کشف المحجوب‘‘ ’’قوت القلوب‘‘ اور امیر حسین کی ’’فوائد الفواد‘‘ اور دوسری بہت سی نادر روزگار کتابیں شب و روز طلبہ کے مطالعہ میں رہتیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒء نے عزیز ترین نامور شاگرد امیر خسرو کو اپنے کتب خانہ کا نگران مقرر کیا۔ 

محمد شاہ تغلیق کا کتب خانہ عہد تغلق کتب خانوں کے اعتبار سے خاصا اہم ہے۔ سلطان محمد تغلق کا کتب خانہ نہایت قیمتی تھا۔ دہلی جو اس زمانے میں علم و ہنر کا مرکز تھا اور اس وقت تقریباً ایک ہزار کتب خانوں سے منور تھا۔ ان میں بہت سے کتب خانے علمی درس گاہوں سے منسلک تھے۔ ان میں ریاضی‘ ہیئت طب اور دوسرے بہت سے علوم پر ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔ سلطان عالموں کو دعوت دیتا اور ان کی قدر دانی کرتا تھا۔ دور دراز سے آنے والا اگر کسی نسخے کو سلطان کی خدمت میں پیش کرتا تو وہ اس کا دامن زر و جواہر سے بھر دیتا تھا۔ وہ فنون لطیفہ کا دلدادہ متمدن‘ فاضل اور بلند پایہ شاعر تھا۔ نجوم‘ فلسفہ‘ ریاضی اور طبعیات میں یکساں مہارت رکھتا تھا۔ وہ سکندر نامہ اور تاریخ محمودی جیسی تصانیف کا کامل واقفیت رکھتا تھا۔ فن شعر گوئی میں کوئی سلطان سے بہتر نہ تھا۔

 دہلی سے دارالخلافہ دیوگری منتقل ہوا تو شہر میں بہت سے کتب خانوں کو نقصان پہنچایا۔ ابن بطوطہ 1341ء میں جب دہلی آیا تو وہ دہلی کو اس حالت میں دیکھ کر بڑا حیران ہوا۔ فیروز شاہ تغلق کا کتب خانہ سلطان فیروزشاہ ایک صاحب علم فرماں روا تھا اس نے عوام کی فلاح و بہبود کے متعدد کام کیے۔ جگہ جگہ رفاہ عامہ کے لیے دینی مدرسے قائم کئے فیروز شاہ نے کتب خانوں کی ترقی و توسیع میں بھی خوب دلچسپی لی۔ اس نے اپنے کتب خانہ میں ایک اعلی معیاری دارالترجمہ قائم کیا جہاں رات دن مختلف مشرقی زبانوں سے فارسی اور عربی میں تراجم کا کام ہوتا تھا۔ نگر کوٹ کی فتح کے موقع پر سلطان کو سنسکرت زبان کی جو سینکڑوں کتابیں ملیں اس نے ان میں سے اکثر کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کروایا اور اپنے کتب خانہ میں سنبھال کر رکھا۔ 
مشہور کتاب دلائل فیروز شاہی انہی میں سے ایک کتاب کا ترجمہ ہے۔ فیروز شاہ کو کتابوں سے دیوانگی کی حد تک لگائو تھا۔ وہ خود صاحب علم و فلم تھا اور اہل علم و ہنر کی بڑی قدر کرتا تھا فتوحات فیروز شاہی اس کی خودنوشت کتاب ہے۔ سلطان نے ملک میں تعلیمی ترقی کے لیے جب بہت سے مدرسے اور کالج کھولے تو ان میں کتب خانوں کا قیام لازمی قرار دیا۔ چنانچہ مدرسہ فیروز شاہی کا کتب خانہ اپنی مثال آپ تھا۔ اسی مدرسہ میں فارسی‘ عربی‘ ہندی‘ ترکی زبان کی نفیس کتابوں کا ذخیرہ محفوظ کیا گیا تھا۔ فیروزشاہ تغلق کے فاضل درباریوں میں ایک تاتار خان تھا وہ مفسر بھی تھا ۔ اس نے بہت سی تفسیروں کو سامنے رکھ کر ایک جامع تفسیر لکھی۔ اسی طرح قانون پر کتابیں جمع کیں اور ایک مستند فتاویٰ تحریر کیا یہ فتاویٰ 30 جلدوں پر مشتمل تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی لائبریری بھی تھی۔
سکندر لودھی کا کتب خانہ (1489-1517)ء لودھی خاندان میں سکندر لودھی سب سے زیادہ قابل‘ معاملہ فہم اور دین دار بادشاہ کہا جاتا تھا۔ وہ علم اور عالموں کا بڑا قدردان تھا اور خود بھی بہت اچھا شاعر تھا۔ اس نے دوسری زبانوں کی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرانے کے لیے معقول انتظام کیا ہوا تھا۔ سلطان کیونکہ خود مطالعہ کا بڑا شوقین تھا۔ اس لیے پورے خاندان اور دربار میں علم و ادب کی محفلوں کا چرچا رہتا تھا۔ علم طب پر سنسکرت اور عربی زبانوں کی مشہور کتابیں ترجمہ کروا کے کتب خانہ میں رکھی گئی تھیں۔ اس طرح اس کے دور حکومت میں قصر شاہی کے کتب خانہ میں نادر اور عمدہ کتابوں کا وافر ذخیرہ فراہم کیا گیا تھا۔ اس عہد میں ہندوستانی طریقہ علاج پر کتابیں لکھی گئیں۔ سلطان لودھی کے دربار میں نامور خوش نویس اور قابل لوگ جمع تھے۔ 1510ء میں محمد بن شیخ ضیاء نے ایک فارسی تصنیف فرہنگ سکندری تیار کی۔ سکندر لودھی کی نظر عنایت سے اس کی پوری سلطنت میں بے شمار کتب خانے وجود میں آئے۔
اشرف علی

مستقبل کی لائبریری، جہاں کوئی کتاب نہیں

امریکا کی سب سے پہلی عوامی ڈیجیٹل لائبریری ریاست ٹیکساس میں قائم کی گئی ہے۔ یہ اس ملک کی وہ پہلی لائبریری ہے، جہاں کوئی بھی کتاب موجود نہیں۔ اس میں صرف اور صرف ٹچ سکرین ٹیبلٹس اور کمپیوٹر رکھے گئے ہیں۔ امریکی ریاست ٹیکساس میں 2.3 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کی گئی اس بُک لیس اور ڈیجیٹل لائبریری کا نام بیبلیو ٹیک رکھا گیا ہے۔ یہ امریکا کی وہ واحد پبلک لائبریری ہے، جس نے ہانگ گانگ تک لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ ہانگ کانگ کے حکام بھی اسی طرح کی ایک لائبریری بنانا چاہتے ہیں۔ امریکن لائبریری ایسوسی ایشن کے مطابق یورپی ممالک اور امریکا کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تو پہلے ہی ڈیجیٹل لائبریریاں موجود ہیں، لیکن یہ پہلی عوامی ڈیجیٹل لائبریری ہے۔ 
ریاست ٹیکساس کا شہر سان انتونیو ملک کا ساتواں سب سے بڑا شہر ہے، لیکن خواندگی کی شرح کے لحاظ سے اس کا نمبر ساٹھواں ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس ڈیجیٹل لائبریری کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عوامی سطح پر کتابیں پڑھنے کے شوق میں اضافہ ہو۔ اس لائبریری میں قطار در قطار سینکڑوں سمارٹ کمپیوٹرز اور ٹیبلٹس رکھے گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اس کے قیام کے پہلے سال ہی میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ اس لائبریری کی سربراہ ایشلے ایلکوف کا تعلق ماضی میں ایک روایتی لائبریری سے تھا۔ کتابوں سے بھری ہوئی ایک روایتی لائبریری میں انہیں کیا مشکلات پیش آتی تھیں، اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ بہت سی کتابوں کے حاشیوں پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا ملتا تھا، بعض اوقات کتاب کے اندر سے صفحات ہی غائب ہوتے تھے۔
پرانی کتابوں کی دوبارہ مرمت کرنے کا بھی مسئلہ ہوتا تھا۔ اگر کوئی کتاب وقت پر واپس نہیں کرتا تھا، تو اسے جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے، لیکن بہت سے لوگ اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔اس لائبریری میں ای بْکس کی بھی بہت وسیع تعداد موجود ہے اور ایک وقت میں کم از کم پانچ کتابیں ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں۔ ایشلے ایلکوف کے مطابق ان کی ڈیجیٹل لائبریری روایتی لائبریری کی نسبت زیادہ سودمند ثابت ہو رہی ہے۔ انتظامیہ نے دس ہزار ڈیجیٹل کتابوں کا ایک مجموعہ خریدا ہے۔ انتظامیہ کو ان ڈیجیٹل کتابوں کے لیے وہی قیمت ادا کرنا پڑی ہے، جو کہ ایک پرنٹڈکتاب کے لیے ادا کی جاتی ہے، لیکن پھر بھی کئی ملین ڈالرز کی بچت کر لی گئی ہے، جو عمارت کی تعمیر اور کتابیں رکھنے کے لیے بندوبست کرنے پر خرچ ہونا تھے۔
ایلکوف کہتی ہیں کہ اگر کتابوں کی الماریاں نہ بنائی جائیں تو عمارت کی مضبوطی پر خرچ ہونے والی رقم بچائی جا سکتی ہے۔ اے پی کے مطابق اسی شہر میں ایک روایتی لائبریری تعمیر کی جا رہی ہے اور اس پر 120 ملین ڈالر کی لاگت آئے گی، جو ڈیجیٹل لائبریری پر آنے والی لاگت سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈیجیٹل لائبریری میں پہلی مرتبہ آنے والوں کو سب سے پہلے ہدایات دی جاتی ہیں کہ انہیں کس طرح کتابوں کو تلاش کرنا ہے، تاہم متعدد افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کوئی ڈیجیٹل کتاب کی بجائے روایتی کتاب پڑھنا پسند کرتے ہیں کیونکہ کمپیوٹر اور ٹیبلٹس کی لائٹ ان کی آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
امتیاز احمد

نو برس کی بچی لائبریری کی منتظم

انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں غریب خاندان کی نو سالہ بچی مسکان اپنے علاقے کے بچوں کے لیے ایک لائبریری چلا رہی ہیں۔
شہر کے درگا نگر کے جھگی کے علاقے میں رہنے والی مسکان نے یہ لائبریری اسی برس ریاست کے تعلیمی مرکز کی مدد سے شروع کی ہے۔ مسکان حال ہی میں دہلی سے واپس آئی ہیں جہاں انھیں حکومت کے پالیسی کمیشن نے انعام سے نوازا ہے۔ کمیشن کی جانب سے انھیں ’تھاٹ لیڈر‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
اس لائبریری کی شروعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے مسکان کہتی ہیں: ’مجھے پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے لیکن یہاں کے بچّے ادھر ادھر گھومتے رہتے تھے۔ پھر ریاستی ایجوکیشن سینٹر کے کچھ افسر یہاں آئے اور انھیں کی مدد سے اس لائبریری کا آغاز 26 جنوری سے ہوگیا۔‘
ان کے اس کام کی وجہ سے مسکان کا ذکر اب اس علاقے میں ہر جگہ ہو رہا ہے اور جھگیوں میں رہنے والے لوگ ان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے انھیں تسلیم کرنے لگے ہیں۔ مسکان کا خواب ہے کہ وہ بڑی ہو کر ڈاکٹر بنیں۔ وہ اس کے لیے پوری توجہ کے ساتھ محنت کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہیں۔ وہ سکول سے آنے کے بعد اپنی لائبریری ہر روز کھولتی ہیں۔ ان کے پاس اس وقت تقریبا 400 کتابیں ہیں۔ ان کی محنت کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی کتابیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور اب انھیں بیرون ملک سے بھی کتابیں مل رہی ہیں۔ اس لائبریری کی وجہ سے جھگی میں رہنے والے دوسرے بچّوں کو بھی پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی رغبت مل رہی ہے۔
اسی علاقے میں رہنے والے دیپک ساکیت بتاتے ہیں: ’اس لائبریری کی وجہ سے جھگی کے بچوں کو پڑھانے کے لیے اساتذہ بھی آنے لگے ہیں۔ وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں اور اگر بچوں کو کوئي مشکل پیش آتی ہے تو اسے بھی وہ ٹیچر حل کردیتے ہیں۔‘ مسکان کے والد منوہر اہروار مزدوری کر کے اپنے خاندان کو چلاتے ہے۔ بیٹی کی کامیابی سے وہ بھی بہت خوش ہیں۔ انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انہیں اپنی بیٹی کے ساتھ دہلی جانے کا بھی موقع ملے گا۔

کتب فروشی ختم ہو رہی ہے یا کتب بینی ؟

پشاور کے یونیورسٹی روڈ پر ایک پرانے بک اسٹور کے باہر یہ نوٹس سیاہ پینا
فلیکس پر لکھا پھٹپھٹا رہا ہے۔ ’’ ہماری علمی پسماندگی نے ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی سیاسی اور اقتصادی غلامی کی گرفت میں دے دیا ہے۔ ملکی وسائل کرپٹ مافیا کے توسط سے عالمی طاقتوں کے لیے استعمال کر کے غربت ، بے روزگاری و اقتصادی پسماندگی قبول کی جا رہی ہے۔ نتیجے میں پورا معاشرہ اخلاقی زوال ، اجتماعی بے حسی ،انتہا پسندی ، دہشت گردی اور خوف کی گرفت میں ہے۔ بے علمی و جہالت کے گھپ اندھیروں نے ہماری بصارت و بصیرت چھین لی ہے۔ ہمیں مطالعے کی عادت نہیں رہی۔ لائبریریاں اور کتابوں کی دوکانیں ہماری معاشرتی و تعلیمی زندگی میں کوئی مقام نہیں رکھتیں۔ان حالات نے ہمیں کتب فروشی ختم کرنے کے افسوس ناک فیصلے پر مجبور کردیا ہے ’’۔شاہین بکس پشاور۔

پچھلے چھ برس میں پشاور میں تین قدیم کتابی دوکانیں ( بشمول سعید بک بینک ، مکتبہِ سرحد ) بند ہو چکی ہیں۔ سنا ہے اب صرف ایک قابلِ ذکر دوکان بچی ہے۔
کراچی کے علاقے صدر میں اب صرف ایک بک شاپ ( تھامس اینڈ تھامس ) گنے کا رس پیلنے والی دو مشینوں کے پیچھے سے جھانکتی نظر آتی ہے۔ ( پاک امریکن ، کتاب محل، اسٹینڈرڈ پبلشنگ ہاؤس ، فوکس پبلشنگ اور سیسی کا کفن دفن ہوئے عرصہ ہوا )۔ دو کروڑ آبادی والے کراچی میں آج اگر آپ کو کوئی ڈھنگ کا بک اسٹور درکار ہے تو اس کے لیے دو فور اسٹارز ہوٹلوں یا کلفٹن کے ایک شاپنگ مال یا پھر اردو بازار جانا پڑے گا۔ کچھ پبلشرز نے اپنا دفتر اور دوکان گاہکوں سے زیادہ اپنی سہولت کے لیے یکجا کر لیے ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کا ادارہ اگرچہ سستی کتابیں چھاپتا ہے لیکن اس کا شو روم عموماً ایسی جگہ بنایا جاتا ہے کہ عام کتاب خواں رسائی کا سوچ کر ہی ہمت ہار جائے۔ حالیہ برسوں میں اگر کوئی ادارہ کتابوں کے فروغ کے اعتبار سے پنپاہے تو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کہا جا سکتا ہے۔اس ادارے کے سالانہ لٹریری فیسٹیولز نے کتب بینی کے شوق کے احیا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

آکسفورڈ لٹریری فیسٹیول کی دیکھا دیکھی حیدرآباد ، گوادر اور فیصل آباد وغیرہ میں بھی مقامی سطح پر کتابی و ادبی میلوں کی داغ بیل پڑی ہے۔ اس کے علاوہ کتابوں کی تیزی سے کم ہوتی دوکانوں کی کمی بڑے شہروں میں وقتاً فوقتاً منعقد ہونے والے سالانہ کتب میلے بھی پوری کر رہے ہیں (جیسے کراچی و لاہور کے ایکسپو سینٹرز میں ہونے والے کتب میلے )۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ کتابوں کی دوکانیں بند زیادہ  اور کھل کم رہی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کتابوں کی قیمت عام آدمی کی رسائی سے باہر ہے لہٰذا وہ چاہے بھی تو کتاب نہیں خرید سکتا۔ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو پھر ورلڈ کلچرل انڈیکس کے تیس ممالک میں کیے گئے آخری سروے ( دو ہزار پانچ ) کے مطابق بھارت ، تھائی لینڈ اور چین کتاب بینی کے معاملے میں امریکا ، یو کے اور جنوبی کوریا وغیرہ جیسے امیر ممالک سے کیوں آگے ہیں ( بھارت میں کتب بینی کا ہفتہ وار اوسط دس اعشاریہ سات ، تھائی لینڈ میں نو اعشاریہ چار اور چین میں آٹھ گھنٹے ہے )۔

یہ بات صرف پاکستان پر ہی لاگو نہیں ہوتی کہ کتابوں کی دوکانیں بند ہو رہی ہیں یا ان میں سناٹا بڑھ رہا ہے۔ امریکا میں بھی یہی حالات ہیں۔ کتب فروشی کی سرکردہ امریکی کمپنی بارڈرز دو ہزار گیارہ میں دیوالیہ ہوگئی۔ دنیا کی سب سے بڑی کتب فروش کمپنی بارنز اینڈ نوبلز کی چھ سو سترہ کتاب دوکانیں تھیں مگر اب ہر برس اسے اوسطاً بیس دوکانیں بند کرنا پڑ رہی ہیں۔ توکیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ امریکیوں میں کتب بینی کا شوق مر رہا ہے ؟
اگر ایسا ہے تو پھر ایمیزون گدشتہ بیس برس کے اندر دنیا کا سب سے بڑا کتب فروش کیسے بن گیا۔ دو ہزار چودہ میں ایمیزون نے سوا پانچ ارب ڈالر کی کتابیں کیسے فروخت کردیں۔ اور جہاں بڑے بڑے کتب فروشوں کو اپنے کاروبار کے لالے پڑے ہیں اور دوکانیں بند ہو رہی ہیں وہاں ایمیزون اگلے پانچ برس کے دوران تین سو سے چار سو کتاب دوکانیں کھولنے کا منصوبہ کیوں بنا رہا ہے ؟ بات یہ ہے کہ روایتی کتب فروش زمانے کی تیز رفتار دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اب بھاری بھر کم کتابوں کی جگہ ای بکس کے انقلاب نے لے لی ہے۔ سنگاپور کے کسی اسکول میں بچے موٹے موٹے بستے لے کر نہیں جاتے بلکہ ان کے ہاتھ میں صرف ایک ٹیبلٹ ہوتی ہے۔اس پاؤ بھر وزن کی ٹیبلٹ میں تمام ای بک نصاب اور کاپیوں کی جگہ ہوم ورک کے لیے ورڈ سافٹ وئیر ہے۔
آج ایک کنڈل ٹیبلٹ ، کوبو ، الڈیکو سافٹ وئیر میں سیکڑوں ای بکس اپ لوڈ ہو جاتی ہیں۔ آپ نہ صرف اسکرین پرورچوئل صفحہ پلٹ سکتے ہیں بلکہ صفحہ پلٹنے کی سرسراہٹ بھی سن سکتے ہیں۔ آپ ہر کتاب کسی کتب فروش کے پاس جائے بغیر کہیں بھی بیٹھے بیٹھے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں اور کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی بھی کر سکتے ہیں۔ اگر ایک مجلد کتاب بیس ڈالر کی ہے اور اس کا پیر بیک ایڈیشن دس ڈالر کا ہے تو وہی کتاب ای بک کی شکل میں آپ تین چار ڈالر میں ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ اب بھلا کون روائیتی دوکان پر جائے اور شیلف بینی کرتا پھرے۔ ایمیزون کے اس ای بک حملے نے بارڈرز کے چار سو بک اسٹورز کو تو برباد کردیا مگر بارنز اینڈ نوبلز اور دیگر بڑے اشاعتی ادارے فوراً بدلتے وقت کی چال کو سمجھ گئے اور ای بکس کے بزنس میں کود کر اپنی جان بچا لی۔
کتابیں تو رہیں ایک طرف اب تو اخبارات کی کاغذی اشاعت بھی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ ، امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل اور بوسٹن گلوب صرف نیٹ پر مہیا ہیں۔ کوئی دن جانتا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ ، نیویارک ٹائمز ، گارجین ، ٹائمز جیسے صحافتی دیوتا بھی محض چار بائی چھ کی اسکرین میں قید ہونے والے ہیں۔ جب لوگ ہی اخبار نہ خریدیں تو اشتتہاری کمپنیاں بھی کیوں وفادار رہیں۔ نیوز پیپرز ایسوسی ایشن آف امریکا کے اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار تین سے دو ہزار چودہ کے درمیان امریکی اخبارات کا اشتہاری ریونیو پینتالیس ارب ڈالر سے کم ہوتا ہوتا ساڑھے سولہ ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ ایسے میں پرنٹ میڈیا کی گنجی کیا نہائے کیا نچوڑے ؟
اب جب کہ نیٹ پبلشنگ میں روائیتی پبلشنگ بزنس سے زیادہ پیسہ اور افرادی قوت ہے۔ ہمارے اردو بازار کے کھڑوس ناشر نئی ٹیکنالوجی اور آئیڈیاز کو گلے لگانے میں باقی دنیا سے اتنے پیچھے کیوں ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ابتدائی انویسٹمنٹ کا خرچہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مارکیٹ چھوٹی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ نئی ٹیکنولوجی میں یہ چھپانا بہت مشکل ہو جائے گا کہ کتاب کی تعدادِ اشاعت ایک ہزار دکھا کے بیس ہزار کیسے بیچی جاتی ہے۔ ڈجیٹل پرنٹنگ کی دنیا میں آنے کے بعد لکھاری کاخون چوسنا اتنا آسان نہیں رہے گا۔ مگر ہم اس کا بھی توڑ نکال لیں گے۔
وسعت اللہ خان