میں مدینے چلا میں مدینے چلا

میں مدینے چلا میں مدینے چلا
پھر کرم ہو گیا میں مدینے چلا

کیف سا چھا گیا میں مدینے چلا
جھومتاجھومتا میں مدینے چلا

پھر اجازت ملی جب خبر یہ سنی
دل میرا جھوم اٹھا میں مدینے چلا

اے شجر اے ہجر تم بھی شمس و قمر
دیکھو دیکھو ذرا میں مدینے چلا

روح مضطر ٹھہر تو نکلنا ادھر
اتنی جلدی ھے کیا میں مدینے چلا

میرے صدیقؓ و عمرؓ ہو سلام آپ پر
برسے رحمت سدا میں مدینے چلا

سبز گنبد کا نور زنگ کر دے گا دور
پائے گا دل جلا میں مدینے چلا

انکے مینار پر جب پڑے گی نظر
کیا سرور آئے گا میں مدینے چلا

کیف و مستی عطا مجھ کو کر دے خدا
مانگتا ھوں دعا میں مدینے چلا

میں تو بس یونہی تھا میری اوقات کیا
قافیہ یہ ملا میں مدینے چلا

درد الفت ملے ذوق بڑھنے لگے
جب چلے قافلہ میں مدینے چلا

مسکرانے لگی دل کی ہر ہر کلی
غنچہ دل میں کھلا میں مدینے چلا

ہاتھ اٹھتے رہے مجھ کو دیتے رہے
وہ طلب سے سوا میں مدینے چلا

کیا کرے گا ادھر باندھ رخت سفر
چل عبیدؔ چل ذرا میں مدینے چلا

عبید رضا قادری

تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں

تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں

جینے کے لیے سوچا ہی نہیں، درد سنبھالنے ہوں گے
مسکرائیں تو مسکرانے کے قرض اتارنے ہوں گے

مسکراؤں کبھی تو لگتا ہے
جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے

آج اگر بھر آئی ہے بوندیں، برس جائیں گی
کل کیا پتا ان کے لیے آنکھیں ترس جائیں گی

جانے کب گم ہوا کہاں کھویا ایک آنسو چھپا کے رکھا تھا
تجھ سے ناراض نہیں زندگی…….

گلزار

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں‌ کرتا

سنا ہے جب
کسی ندی کے پانی میں

بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں‌ اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں

ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں‌
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر

کوے کے انڈوں کو پروں‌ سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گر ے تو

سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آجائے

کوئی پُل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر

گلہری ، سانپ ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

خداوندِ جلیل و معتبر ، دانا و بینا منصف و اکبر
ہمارے شہر میں اب جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر !!

زہرہ نگاہ

کبھی ہم بھی خوبصورت تھے

کبھی ہم بھی خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی!

بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے

جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے !

نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے۔۔۔ ۔۔امی!

تتلیوں کے پر بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
کہ ہم کو تتلیوں کے‘ جگنوؤں کے دیس جانا ہے

ہمیں رنگوں کے جگنو‘ روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ

کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو

احمد شمیم

یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں وہیں کے نہیں

یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں وہیں کے نہیں
جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پِھر کہیں کے نہیں

وفا سرشت میں ہوتی تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں

ہوا کی گرم خرامی سے پڑ رہے ہیں بھنور
یہ پیچ و تاب کسی موجِ تِہ نشیں کے نہیں

سُنا گیا ہے کہ اکثر قیام و ذکر و سجُود
ہیں جس کے نام اُسی جانِ آفریں کے نہیں

تمام عمر پِھرے دربدر، کہ گھر ہو جائے
گھروں میں رہنا بھی تقدیر میں اُنہیں کے نہیں

بِکھر رہے ہیں جو آنسُو بغیر منّتِ دوست
وہ دامنوں کی امانت ہیں آستیں کے نہیں

افتخار عارف

گل از رخت آموختہ نازک بدنی را

مشہور_فارسی_نذرانہ_عقیدت
مولانا جامی (رح) کی ایک خوبصورت نعت ملاحظہ فرمائیے۔
اردو ترجمہ ہر شعر کے نیچے درج ہے

گل از رخت آموختہ نازک بدنی را
بلبل زتو آموختہ شیریں سخنی را
(گلاب نے تیرے چہرے سے نزاکت کا درس لیا ہے۔ بلبل نے تیرے تکلم سے شیریں کلامی سیکھی ہے)

ہر کس کہ لبِ لعل ترا دیدہ بہ دل گفت
حقا کہ چہ خوش کندہ عقیقِ یمنی را
(جس نے بھی تیرے لعل گوں لب دیکھے تو دل سے کہا، یقینا” اس یمنی عقیق کو بہت خوبصورتی سے تراشا گیا ہے)

خیاطِ ازل دوختہ بر قامتِ زیبا
در قد توایں جامۂ سروِ چمنی را
(ازل کے خیاط نے تیری خوبصورت قامت پر، سرو ِ سمن کا حسین جامہ تیار کیا ہے)

در عشقِ تو دندان شکستہ است بہ الفت
تو جامہ رسانید اویسِ قرنی را
(تیرے عشق میں اپنے دانت گنوا دیئے تو آپ ص نے اویس قرنی کو جامہ ارسال کیا)

بر درگہِ دربارِ رسولِ مدنی را
ازجامیِ بے چارا رسانید سلام
(رسول مدنی کے دربار میں، بے چارے جامی کی طرف سے سلام پہنچا دو)

ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ . ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن​

​تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
​جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کرے ​

کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا​
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں ​

تیرے ایوانوں میں پرزے ہوے پیماں کتنے​
کتنے وعدے جو نہ آسودۂ اقرار ہوے ​

کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بدخواہوں کی​
خواب کتنے تری شاہراہوں میں سنگسار ہوے​

“بلاکشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا​
جو مجھ پہ گزری مت اس سے کہو، ہوا سو ہوا​

مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر​
لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا”

ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں​
اپنے عشّاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے​

تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم​
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے، ہمارا کیا ہے

فیض احمد فیض

کچھ دل سے کسی نے کہہ دیا پھر

کچھ دل سے کسی نے کہہ دیا پھر
وحشت کا چلے گا سِلسلہ پھر

پھولوں پہ دھنک کی بارشیں ہیں
خوشبو سے ہُوا ہے رابطہ پھر

بے نام رفاقتوں کا موسم
زخموں کے چمن کھِلا گیا پھر

خوابوں سے ڈری ہوئی تھیں آنکھیں
ڈرڈر کے کیا ہے حوصلہ پھر

آنکھیں تھیں اُداس مُسکرا دیں
پیاسا تھا بدن چھلک پڑا پھر

پتھراؤ سے کب تلک بچیں گے
پھر ٹوٹ گیا جو آئینہ پھر

پھر شہر کے سارے داستاں گو
دُہرائیں گے ایک واقعہ پھر

افتخارعارف

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں

سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کی لئے پکارا نہیں

جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار
جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں

ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نِسبتوں کے امیں
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں

افتخار عارف

عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں

عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے

وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پہ رکھتا ہے
یہی ہے وجہ مجھے چومتے جھجھکتا ہے

وہ آشنا مرے ہر کرب سے رہے ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پاتا مگر سسکتا ہے

جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں فقط مری ہاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے

ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے

وہ لوٹتا ہے کہیں رات دیر کو دن بھر
وجود اس کا پسینے میں ڈھل کے بہتا ہے

گلے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک داماں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے

پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
مگر کھلونے مرے سب خرید لاتا ہے

وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا ہے جی بھر کے
نہ جانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا ہے

مرے بغیر ہیں سب خواب اس کے ویراں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے

طاہر شہیر