قومی زبان اور ابن صفی

انجمن ترقی اردو سو سال سے زیادہ قدیم ادارہ ہے۔ تقسیم کے بعد اس کے دو حصے ہوئے، ایک حصہ ہندوستان میں رہ گیا اور ایک حصے کو مولوی عبدالحق پاکستان لے آئے۔ اس کے تحت نہایت وقیع کتابیں شایع ہوئیں اور دو علمی جرائد بھی پابندی سے شایع ہوتے رہے۔ چند دنوں پہلے اس کے ماہنامے ’’ قومی زبان‘‘ کی مدیر ڈاکٹر یاسمین فاروقی نے جب مجھے بتایا کہ وہ اس ابن صفی نمبر مرتب کر رہی ہیں تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں ابن صفی کی تخلیقی اپچ کے بارے میں لکھوں تو میں نے فوراً وعدہ کر لیا لیکن اسے بروقت پورا نہ کر سکی۔ ابن صفی میرے پسندیدہ لکھنے والے رہے ہیں۔ وہ دن مجھے یاد آئے جب کراچی کے ریگل سینما پر ان کے نئے ناول کو خریدنے والوں کی قطار لگتی تھی اور ان کے پڑھنے والے استہزائیہ نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ انھی کے ناول ثقہ لوگوں کے تکیوں کے نیچے ملتے۔

میں ان ہی دنوں ’’ عالمی ڈائجسٹ ‘‘ سے وابستہ ہوئی اور میں نے ابن صفی سے نیاز حاصل کیے اور انھوں نے ہمارے لیے ایک قسط وار ناول لکھا۔ زمانہ کس طرح پلٹتا ہے، میں نے اس وقت دیکھا جب کئی ثقہ ادیب آتے تھے اور ان کی قسط پڑھ کر چلے جاتے تھے۔ کوشش ان کی یہ ہوتی تھی کہ وہ ان کے جملوں میں کوئی نقص نکالیں۔ حالانکہ میں نے ان میں سے کسی کو ابن صفی کی نثر میں نقص نکالتے نہیں دیکھا اور ابھی چند برس پہلے میں نے ان کے کئی نالوں کے انگریزی ترجمے دیکھے۔ خود ابن صفی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ وہ جو اپنی زندگی میں ایک عوامی لکھنے والے سمجھے جاتے تھے، ان کے بارے میں یاسر جواد نے اپنے ’’ انسائیکلو پیڈیا ادبیات عالم‘‘ میں لکھا ہے کہ جب عالمی شہرت یافتہ جاسوسی ناول نگار اگارتھا کرسٹی پاکستان آئیں تو انھوں نے ابن صفی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

ابن صفی مغل اعظم کے بسائے ہوئے شہر الٰہ آباد میں 1928 میں پیدا ہوئے۔ وہ زمانہ تھا جب پڑھے لکھے گھرانوں کے نوجوان گاتے ، گنگناتے پیدا ہوتے تھے۔ ابن صفی کو بچپن سے ہی شاعری اور نثر نگاری کا شوق تھا۔ 24 برس کی عمر سے انھوں نے جاسوسی ناول لکھنے شروع کیے۔ ’’ دلیر مجرم ‘‘ ان کا پہلا ناول تھا جو چھپا اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا۔ اس کی خوشبو پاکستان بھی پہنچی۔ کچھ دنوں ان کے ناول اسمگل ہوئے جس طرح ’’شمع دہلی‘‘ اور ’’ کھلونا دہلی‘‘ اسمگل ہوتے تھے، کچھ دنوں بعد وہ خود پاکستان آگئے۔ ان کے کردار کرنل فریدی، کیپٹن حمید اور عمران اس زمانے میں نوجوانوں تو کیا بزرگ خواتین اور مردوں کے بھی محبوب کردار تھے۔ ابتدا میں انھوں نے فریدی کو انسپکٹر کا رینک دیا تھا۔ اپنے پہلے ناول ’’ دلیر مجرم‘‘ میں وہ لکھتے ہیں: ’’ سڑک کے دونوں طرف دور دور تک چھیول کی گھنی جھاڑیاں تھیں۔ سڑک بالکل سنسان تھی۔ ایک جگہ اسے بیچ سڑک پر ایک خالی تانگہ کھڑا نظر آیا۔ وہ بھی اس طرح جیسے وہ خاص طور پر راستہ روکنے کے لیے کھڑا کیا گیا ہو۔ 

فریدی نے کار کی رفتار دھیمی کر کے ہارن دینا شروع کیا لیکن دور و نزدیک کوئی دکھائی نہ دیتا تھا۔ سڑک زیادہ چوڑی نہ تھی۔ لہٰذا فریدی کو کار روک کر اترنا پڑا۔ تانگہ کنارے لگا کر وہ گاڑی کی طرف لوٹ ہی رہا تھا کہ اسے دور جھاڑیوں میں ایک بھیانک چیخ سنائی دی۔ کوئی بھرائی ہوئی آواز میں چیخ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بار بار چیخنے والے کا منہ دبا لیا جاتا ہو اور وہ گرفت سے نکلنے کے بعد پھر چیخنے لگتا ہو۔ فریدی نے جیب سے ریوالور نکال کر آواز کی طرف دوڑنا شروع کیا۔ وہ قد آدم جھاڑیوں سے الجھتا ہوا گرتا پڑتا جنگل میں گھسا جا رہا تھا۔ دفعتاً ایک فائر ہوا اور ایک گولی سنسناتی ہوئی اس کے کانوں کے قریب سے نکل گئی۔ وہ پھرتی کے ساتھ زمین پر لیٹ گیا۔ لیٹے لیٹے رینگتا ہوا وہ ایک کھائی کی آڑ میں ہو گیا۔ اب پے درپے فائر ہونے شروع ہو گئے۔ اس نے بھی اپنا پستول خالی کرنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف سے فائر ہونے بند ہو گئے۔

شاید گولیاں چلانے والا اپنے خالی پستول میں کارتوس چڑھا رہا تھا۔ فریدی نے کھائی کی آڑ سے سر ابھارا ہی تھا کہ فائر ہوا۔ اگر وہ تیزی سے پیچھے کی طرف نہ گر گیا ہوتا تو کھوپڑی اڑ ہی گئی تھی۔ دوسری طرف سے پھر اندھا دھند فائر ہونے لگے۔ فریدی نے بھی دو تین فائر کیے اور پھر چیختا کراہتا سڑک کی طرف بھاگا۔ دوسری طرف سے اب بھی فائر ہو رہے تھے۔ لیکن وہ گرتا پڑتا بھاگا جا رہا تھا۔ کار میں پہنچتے ہی وہ تیز رفتاری سے شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔‘‘ انھوں نے ابتدا سے ہی اپنے ناولوں میں تجسس اور سریت آمیز فضا قائم رکھی۔ اس نے ان کے پڑھنے والوں کو اپنا اسیر کر لیا۔ اوپر کی چند سطریں ان کے پہلے ناول ’’دلیر مجرم‘‘ سے لی گئی ہیں جس میں بات انسپکٹر فریدی کی موت اور اس کے پوسٹ مارٹم تک جا پہنچتی ہے۔ اب لوگ حیران پریشان ہیں کہ جب انسپکٹر مارا گیا تو پھر اس جرم کا کھوج کیسے لگے گا۔

اب سے تیس چالیس برس پہلے تک ابن صفی کا نام چلتا ہوا سکہ تھا۔ ان کے کیسے کیسے نقل کرنے والے پیدا ہوئے۔ کوئی اکرم الٰہ آبادی تھا اور کوئی اے صفی لیکن کوئی بھی انھیں مات نہ دے سکا۔ وہ لوگ جو انھیں چاہتے تھے وہ ’’ اصل‘‘ اور ’’ نقل ‘‘ کا فرق جانتے تھے۔ آج آکسفورڈ اور کیمبرج کے پڑھے ہوئے ہمارے بعض رہنما جس قدر کثیف زبان استعمال کرتے ہیں، کاش انھوں نے ابن صفی کو پڑھا ہوتا جنھوں نے شائستگی سے گری ہوئی زبان کبھی استعمال نہیں کی۔ وہ تیسرے درجے کے لکھنے والے کہے جاتے تھے لیکن اب ان کے ناول انگریزی میں ترجمہ ہوتے ہیں۔ میں نے ایک تندور والے کو ان کے ناول اپنے ان پڑھ کام کرنے والوں کو پڑھ کر سناتے اور پھر ابن صفی کی چٹخارے دار زبان ان ہی ناولوں کے ذریعے سکھاتے دیکھا ہے۔ وہ موجود نہیں رہے لیکن ان کے چاہنے والے موجود ہیں۔ ان کے درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہیں۔

زاہدہ حنا  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

میں اور میرا کمرہ

جس طرح کا ماحول ہے اس میں اگر کوئی گوشہِ عافیت اب تک باقی ہے تو میرا کمرہ ہے۔
شہر میں کس کی خبر رکھیے کدھر کو چلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے
(نصیر ترابی)
میں اور میرا کمرہ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھ گئے ہیں۔ وہ میرے شب و روز کا نظام الاوقات اب پہلے سے بہتر جانتا ہے۔شروع شروع میں کچھ ایڈجسٹمنٹ پرابلمز آئے۔ مثلاً میری یہ شکایت کہ وہ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتا۔ بس سنتا ہی کیوں رہتا ہے۔ پھر مجھ پر آہستہ آہستہ کھلنے لگا کہ مجھے اس کی زبان سیکھنا پڑے گی اور اس کے احساسات کو اسی کے اشاروں کی مدد سے سمجھنا پڑے گا۔

شروع شروع میں یہ بہت مشکل سا لگا۔ لیکن اب مجھے معلوم ہے کہ اس کے کس اشارے کا کیا مفہوم ہے۔ مثلاً جب میں کھڑکی اور دروازہ بند کر کے بھی باہر جاتا ہوں تو دو دن بعد کمرے کے فرش اور آزو بازو پڑی اشیا پر گرد کی ایک ہلکی سی تہہ جم جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کمرہ صفائی پسند ہے اور میرے برعکس روزانہ کی ڈسٹنگ اور ڈریسنگ کا طالب ہے۔ مجھے اپنے روزمرہ کے کپڑے الماری کے پٹ سے لٹکانے کی عادت ہے، لیکن کمرے کے لیے جب یہ پھوہڑ پن برداشت سے باہر ہوجاتا ہے تو وہ الماری کے پٹ کو اشارہ کرتا ہے اور میری قمیضیں اور جینز جانے کیسے پٹ پر سے پھسل کر فرش پر پھیل جاتی ہیں۔ اور پھر میں ان سب کو کمرے کی خوشنودی کی خاطر الماری کے اندر ٹانگ دیتا ہوں۔ اگلے دن پھر کوئی قمیض جانے کیسے پٹ سے لٹک جاتی ہے۔ اس کمرے کی دیوار پر کب سے ایک ٹی وی سیٹ نصب ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ آخری بار اس ٹی وی سیٹ پر میں نے کیا دیکھا۔ بیرونی دنیا سے رابطے کا مرغوب ذریعہ لیپ ٹاپ اور موبائل فون ہے۔ کیونکہ ٹی وی آپ کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے۔

آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اس ایڈیٹ باکس کو تکتے تکتے کتنا وقت بیت گیا اور جب آف کیا تو کچھ یاد نہیں رہتا کہ کیا سنا، کیا دیکھا ، کیوں سنا اور دیکھا۔ جب کہ لیپ ٹاپ اور موبائل پر آپ کا نسبتاً کنٹرول رہتا ہے۔ کون سا مباحثہ یا ریلیٹی شو کب دیکھنا ہے، کتنا دیکھنا ہے۔ کس کال کا فوری اور کس کا ٹھہر کے جواب دینا ہے۔ یہ سب آپ کی دسترس میں ہے، مگر یہ دسترس خود بخود پیدا نہیں ہوتی۔ اسے اپنے آپ پر نافذ کرنا پڑتا ہے۔ ذرا سی ڈھیل ملی نہیں اور یہ آلات سر پر چڑھے نہیں۔ کمرے میں میرا بستر ہی میرا دفتر بھی ہے۔ اس کے نصف حصے پر میں سوتا ہوں اور باقی نصف پر چند خالی کاغذات، کچھ کچے پکے مسودے اور دو تین ادھ پڑہی کتابیں نیم وا آنکھوں کے ساتھ سوتی جاگتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک آدھے سے زیادہ کمرے پر کتابوں کا تسلط تھا۔ مگر میں نے ایک روز انھیں زبردستی ڈرائنگ روم میں ان کی الماری رہائش گاہیں بنا کر منتقل ہونے پر آمادہ کر لیا۔ شاید وہ اس ہجرت سے خوش نہیں۔

جب تک یہ کتابیں میرے کمرے میں تھیں تو آسانی سے دکھائی دے جاتی تھیں۔ اب ڈرائنگ روم میں جا کے تلاش کرتا ہوں تو ایک دوسرے کے پیچھے چھپ جاتی ہیں اور دکھائی دے بھی جائیں تو انھیں پکڑتے ہی انگلیوں پر گرد اپنے نشانات چھوڑ دیتی ہے۔ مگر میں ان کتابوں کی فطرت سے واقف ہوں۔ ان کی جذباتی بلیک میلنگ میں آ کر پھر سے اپنے کمرے میں منتقل نہیں کروں گا۔ جب سے کتابیں منتقل ہوئی ہیں۔ کمرے کی دیواروں پر بھی بشاشت کی ہلکی سی لہر محسوس ہوتی ہے۔ دو ماہ پہلے جانے کیا دماغ میں آیا کہ میں نے اپنے اس دوست کی دیواروں اور چھت پر تازہ پینٹ کروا دیا۔ مگر پھولوں والی دیواری پینٹنگ کو نہیں چھیڑا تاکہ ماضی کا حال سے کچھ تو رشتہ برقرار رہے۔ کمرہ پہلے سے زیادہ بڑا لگنے لگا۔ شاید دیواروں کو نیا پہناوا اچھا لگا تب ہی ان سے فراخی چھلک رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ میں دوسرے کمرے یا لاؤنج کا خیال نہیں رکھتا۔ ان کی بھی ویسے ہی دیکھ بھال کی کوشش کرتا ہوں جتنی اپنے کمرے کی۔ مگر کبھی کبھی جب میں دوسرے کمرے یا لاؤنج کی تشفی کے لیے ان کے درمیان جا کے بیٹھتا ہوں تو وہاں کی دیواریں طنزیہ مسکراہٹ سے استقبال کرتی ہیں ’’کہیے کیسے زحمت کی۔ آج ہماری یاد کیونکر آ گئی۔ سب خیریت تو ہے‘‘۔ ایک بار میں نے جھنجلا کر ان سے کہا کہ شکر کرو میں تمہارے ساتھ رہتا ہوں۔ تصور کرو جون ایلیا کے ساتھ تمہیں رہنا پڑ جاتا تو کیا ہوتا۔

فرش پے کاغذ اڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

میری اس طرح کی جھنجلاہٹ دیکھ کر کبھی کبھی دیواریں سہم جاتی ہیں۔ پھر ان کا موڈ درست کرنے کے لیے مجھے اپنے دوست فاضل جمیلی کی ایک اکتائی ہوئی نظم سنانا پڑتی ہے اور یقین دلانا پڑتا ہے کہ میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا نہ اکتاؤں گا۔ تم جیسے بھی ہو بہت اچھے ہو۔ میں ایسی نظمیں نہیں کہوں گا کہ

مجھے کمرہ بدلنا ہے
یہ سیلنگ فین بوڑھا ہو چکا ہے، کھانستا رہتا ہے راتوں کو
مجھے گھڑیال کی یہ بے تکی ٹک ٹک بھی اب اچھی نہیں لگتی

یہ دیواریں ادھڑتی جا رہی ہیں، جس طرح بنیان ادھڑتی ہے
یہ دروازے یہ روشن دان اک دوجے سے لڑتے ہیں

چٹائی اور تکیے کی بھی آپس میں نہیں بنتی
ہواؤں سے لرزتی کھڑکیوں کو اور کتنے دن تسلی دوں

سجی ہیں شیلف میں یا جا بجا بکھری ہوئی ہیں اب
نہیں ہے ان کتابوں سے کوئی بھی گفتگو میری

یہ آئینہ کمینا مجھ سے کہتا ہے
تمہارا عکس دھندلا ہے

وجودِ نامکمل ہو
تمہاری ذات اب ٹوٹے ہوئے اس فرش جیسی ہے
یہ استرکاریاں کر کے جو تم گھر سے نکلتے ہو

اداکاری تو کرتے ہو
کہوں کیا اس کمینے سے کہ میں ایسا نہیں تھا، ہو گیا ہوں
مجھے اس بے یقینی سے نکلنا ہے

مجھے کمرہ بدلنے دو مجھے کمرہ بدلنا ہے

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ابنِ صفی: ایک ’’غیر ادبی‘‘ ناول نگار

سوشل میڈیا سے پہلے کا زمانہ بھی خوب تھا، چھوٹے بچے اور لڑکے بالے اسکول سے آنے کے بعد کھیل کود کے لیے گھر سے نکل جاتے تھے اور سورج ڈوبنے سے پہلے والدین بچوں کو پکڑ پکڑ کر گھر لایا کرتے تھے۔ آج بچے اور لڑکے بالے موبائل اور لیپ ٹاپ لے کر گھر کے ہی کسی کمرے میں پڑے رہتے ہیں۔ والدین انہیں زبردستی باہر بھیجتے ہیں کہ جائو کہیں کھیلو کودو۔ پچھلے زمانے میں جنہیں پڑھنے لکھنے کا شوق ہوتا تھا وہ محلے کی لائبریری سے کرائے پر کوئی کتاب لے آیا کرتے تھے اور کسی کونے کھدرے میں چھپ کر پڑھتے رہتے تھے۔ کرائے پر لائی گئی کتاب میں کچھ ایسا ہوتا تھا کہ پڑھنے والا دنیا و مافیہا سے بےخبر ہو جاتا تھا۔ اُس نسل کو مطالعے کی لت لگانے والے شخص کا نام ابنِ صفی ہے۔ ابنِ صفی کے جاسوسی ناول مہینے کے مہینے چھپا کرتے تھے اور ہاتھوں ہاتھ بک جایا کرتے تھے۔

جو خرید نہیں سکتے تھے وہ لائبریری سے کرائے پر لے کر پڑھا کرتے تھے۔ اس زمانے میں والدین کو مطالعے کی یہ عادت بری لگتی تھی، آج کے والدین کہتے ہیں کہ ان کے بچے مطالعہ نہیں کرتے۔ اس بات کا حاصل یہ ہے کہ بڑوں کو نئی نسل کی سرگرمیوں پر ہمیشہ سے اعتراض رہا ہے۔ جب یہ نئی نسل صاحبِ اولاد ہو جاتی ہے تو اسے اپنی اولاد سے گلے شکوے پیدا ہو جاتے ہیں اور نئی نسل کہتی ہے۔

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ ہو
ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں کی عجیب کہانی ہے۔ اُس زمانے کے بڑے بڑے ادیب اور شاعر بھی ان کے ناول وقت گزارنے کے لیے پڑھا کرتے تھے لیکن برسر عام وہ اپنے اس ’’جرم‘‘ کا اقرار کبھی نہیں کرتے تھے۔ جس زمانے میں ابنِ صفی کے ناول بہت مقبول تھے اُس زمانے کے اردو زبان و ادب کے اساتذہ نے ابنِ صفی کو کبھی کسی کالج یا یونیورسٹی میں گھسنے ہی نہیں دیا۔

ان کے کسی ناول کا تجزیہ ہوا نہ تحقیقی مطالعہ۔ اگر ایم اے اردو کا کوئی طالب علم ابنِ صفی کے ناولوں پر تحقیقی مقالہ لکھنے کی اجازت طلب کرتا تو اس کا ساری کلاس کے سامنے مذاق اڑایا جاتا اور کہا جاتا ’’دیکھو! یہ ابنِ صفی کو پڑھتا ہے‘‘۔ خود مجھے بھی یہ طعنہ ایم اے کے زمانے میں اپنے استاد سے سننا پڑا تھا، وہ اردو ناول نگاروں کے بارے میں لیکچر دے رہے تھے۔ جب وہ اپنا لیکچر مکمل کر چکے تو میں نے عرض کیا ’’سر! آپ نے ابنِ صفی کا تو ذکر کیا ہی نہیں‘‘ استاد گرامی نے چھوٹتے ہی کہا ’’ابنِ صفی کے ناول ادب کی ذیل میں نہیں رکھے جا سکتے‘‘، ان کی یہ بات سن کر میں ایک اچھے شاگرد کی طرح چپ سادھ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔

اتفاق سے ایم اے اردو کے سالانہ پرچوں میں اردو ناول نگاری کے ارتقا پر ایک سوال پوچھ لیا گیا۔ میں نےاپنی ساری بھڑاس اس پرچے میں نکالی۔ مشہور ادبی ناول نگاروں کے ساتھ ساتھ میں نے ابن صفی جیسے ’’غیر ادبی‘‘ ناول نگاری کا بھی مفصل ذکر کیا اس پرچے میں میرے نمبر دوسرے پرچوں سے زیادہ آئے ممتحن بھی شاید میری طرح ابن صفی کا عاشق تھا۔ میں لاہور کے ایک مشہور فکشن رائٹر کا انٹرویو کرنے کے لیے ان کے گھر گیا۔ ان سے ابنِ صفی کی ناول نگاری کے بارے میں استفسار کیا تو بولے ’’میں ایسی کتابیں نہیں پڑھتا‘‘، میں نے ایک اور سوال داغا ’’سر! آپ نے ان کی دو چار کتابیں تو پڑھی ہی ہوں گی؟ تبھی تو آپ نے ان کے بارے میں ایک رائے قائم کی ہے‘‘۔ بولے ’’نہیں۔ کچھ کتابیں میں سونگھ کر رکھ دیتا ہوں‘‘۔ میں آج واشگاف انداز میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھے مطالعے کی لت ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں سے لگی۔ میری طرح ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو ابنِ صفی کے ’’غیرادبی‘‘ ناول پڑھ کر ’’خراب‘‘ ہوئے۔

میرا کہنا تو یہ ہے کہ ابنِ صفی نے ادب عالیہ لکھنے والوں کو اچھے پڑھنے والے دیے ہیں۔ ابنِ صفی کے ناول آپ آج بھی اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ان میں آپ کو نہایت شستہ اور شائستہ زبان ملے گی۔ شگفتگی، ظرافت، بذلہ سنجی اور مزاح کی چاشنی ملے گی۔ چونکہ ابنِ صفی شاعر بھی تھے اس لیے ان کی نثر کہیں کہیں مقفیٰ اور مسجع ہو جاتی ہے۔ منتخب شعروں کی پیوندکاری کا ہنر بھی ہمارے ابنِ صفی کو آتا تھا۔ چونکہ وہ بذاتِ خود ایک نفیس آدمی تھے اس لیے ان کا شعروں کا انتخاب اُنہیں رسوا نہیں ہونے دیتا تھا۔ وہ تحریف نگاری کے فن سے بھی آشنا تھے۔ کسی کے شعر میں دو تین لفظ بدل کر وہ مفہوم کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے تھے۔ تحریف کرتے ہوئے وہ اس بات کا پورا خیال رکھتے تھے کہ شعر کا وزن قائم رہے۔ میں آج کے زمانے کے کئی مشہور مزاح نگاروں کو جانتا ہوں جو تحریف کرتے ہوئے شعر کو بےوزن کر ڈالتے ہیں۔ جب ان سے اس ’’غیر پارلیمانی‘‘ حرکت کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ مزاح میں سب چلتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر مزاح میں سب چلتا ہے تو پھر مشتاق احمد یوسفی تحریف کرتے ہوئے شعر کا وزن کیوں قائم رکھتے تھے؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ آج سے چالیس سال پہلے کا سوشل میڈیا یہی ابنِ صفی کے ناول تھے۔ جس طرح آج کے والدین سوشل میڈیا کو کوستے نظر آتے ہیں، ماضی میں وہ ابنِ صفی کو مورد الزام ٹھہرایا کرتے تھے۔ ابنِ صفی کا زمانہ چلا گیا وہ 1980 میں صرف 52 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے تھے لیکن ان کے عاشقوں کی تعداد آج بھی کم نہیں۔ بہت سے ادیب اور شاعر صرف اس ظلم کی تلافی کے لیے آج ابنِ صفی کی شخصیت اور ناول نگاری پر تنقیدی و تحقیقی مقالے لکھ رہے ہیں جو انہوں نے ماضی میں اس مرد درویش پر روا رکھا۔ آج ابنِ صفی پر پاکستان ہی نہیں انڈیا کی یونیورسٹیوں میں بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں۔

ابنِ صفی کو مسلسل پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ابن صفی شاعری بھی کرتے تھے وہ غزل کے نہایت پختہ شاعر تھے، کیوں نہ ہوتے، استاد نوح ناروی کے خانوادے سے جو تھے، ابنِ صفی شاعری کی دنیا میں اسرار ناروی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کی یہ غزل کلاسیکل گائیک حبیب ولی محمد نے گا کر امر کر دی ہے:

راہِ طلب میں کون کسی کا اپنے بھی بیگانے ہیں
چاند سے مکھڑے رشک غزالاں سب جانے پہچانے ہیں

بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں

ناصر بشیر

بشکریہ روزنامہ جنگ

طنز و مزاح، اتفاق میں برکت ہے

ایک بڑے میاں جنہوں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کمایا بنایا تھا، آخر بیمار ہوئے، مرض الموت میں گرفتار ہوئے۔ ان کو اور تو کچھ نہیں، کوئی فکر تھی تو یہ کہ ان کے پانچوں بیٹوں کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ گاڑھی کیا، پتلی بھی نہیں چھنتی تھی۔ لڑتے رہتے تھے۔ کبھی کسی بات پر اتفاق نہ ہوتا تھا حالانکہ اتفاق میں بڑی برکت ہے۔ آخر انہوں نے بیٹوں پر اتحاد و اتفاق کی خوبیاں واضح کرنے کے لئے ایک ترکیب سوچی۔ ان کو اپنے پاس بلایا اور کہا۔ ”دیکھو اب میں کوئی دم کا مہمان ہوں، سب جاکر ایک ایک لکڑی لاؤ۔‘‘ ایک نے کہا۔ ”لکڑی؟ آپ لکڑی کا کیا کریں گے؟‘‘ دوسرے نے آہستہ سے کہا۔ ”بڑے میاں کا دماغ خراب ہو رہا ہے۔ لکڑی نہیں شاید ککڑی کہہ رہے ہیں۔ ککڑی کھانے کو جی چاہتا ہو گا۔‘‘ تیسرے نے کہا۔ ”نہیں کچھ سردی ہے، شاید آگ جلانے کو لکڑیاں منگاتے ہوں گے۔‘‘ چوتھے نے کہا۔ ”بابو جی! کوئلے لائیں؟‘‘ پانچویں نے کہا۔ ”نہیں! اپلے لاتا ہوں وہ زیادہ اچھے رہیں گے۔‘‘ باپ نے کراہتے ہوئے کہا۔ ”ارے نالائقو! میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔

کہیں سے لکڑیاں لاؤ، جنگل سے۔‘ ایک بیٹے نے کہا۔ ”یہ بھی اچھی رہی، جنگل یہاں کہاں؟ اور محکمہ جنگلات والے لکڑی کہاں کاٹنے دیتے ہیں۔‘‘ دوسرے نے کہا۔ ”اپنے آپے میں نہیں ہیں بابو جی۔ بک رہے ہیں جنون میں کیا کیا کچھ۔ تیسرے نے کہا۔ ”بھئی لکڑیوں والی بات اپن کی تو سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ چوتھے نے کہا۔ ”بڑے میاں نے عمر بھر میں ایک ہی تو خواہش کی ہے، اسے پورا کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ پانچویں نے کہا۔ ”اچھا میں جاتا ہوں ٹال پر سے لکڑیاں لاتا ہوں۔‘‘ چنانچہ وہ ٹال پر گیا۔ ٹال والے سے کہا۔ ”خان صاحب ذرا پانچ لکڑیاں تو دینا، اچھی مضبوط ہوں۔‘‘ ٹال والے نے لکڑیاں دیں۔ ہر ایک خاصی موٹی اور مضبوط۔ باپ نے دیکھا اس کا دل بیٹھ گیا۔ یہ بتانا بھی خلافِ مصلحت تھا کہ لکڑیاں کیوں منگائی ہیں اور اس سے کیا اخلاقی نتیجہ نکالنا مقصود ہے۔

آخر بیٹوں سے کہا۔ ”اب ان لکڑیوں کا گھٹا باندھ دو۔‘‘ اب بیٹوں میں پھر چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ”گھٹا، وہ کیوں؟ اب رسی کہاں سے لائیں۔ بھئی بہت تنگ کیا ہے اس بڈھے نے۔‘‘ آخر ایک نے اپنے پاجامے میں سے ازار بند نکالا اور گھٹا باندھا۔ بڑے میاں نے کہا۔ ”اب اس گھٹے کو توڑو۔‘‘ بیٹوں نے کہا۔ ”لو بھئی یہ بھی اچھی رہی۔ کیسے توڑیں؟ کلہاڑا کہاں سے لائیں؟‘‘ باپ نے کہا۔ ”کلہاڑی سے نہیں، ہاتھوں سے توڑو، گھٹنے سے توڑو۔‘‘ حکم والد مرگ مفاجات۔ پہلے ایک نے کوشش کی، پھر دوسرے نے، پھر تیسرے نے، پھر چوتھے نے، پھر پانچویں نے۔ لکڑیوں کا بال بیکا نہ ہوا۔ سب نے کہا۔ ”بابو جی! ہم سے نہیں ٹوٹتا یہ لکڑیوں کا گھٹا۔‘‘ باپ نے کہا۔ ”اچھا اب ان لکڑیوں کو الگ الگ کر دو، ان کی رسی کھول دو۔‘‘ ایک نے جل کر کہا۔ ”رسی کہاں ہے، میرا ازار بند ہے۔ اگرآپ کو کھلوانا تھا تو گھٹا بندھوایا ہی کیوں تھا۔

لاؤ بھئی کوئی پنسل دینا ازار بند ڈال لوں پاجامے میں۔‘‘ باپ نے بزرگانہ شفقت سے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ”اچھا اب ان لکڑیوں کو توڑو، ایک ایک کر کے توڑو۔‘‘ لکڑیاں چونکہ موٹی موٹی اور مضبوط تھیں۔ بہت کوشش کی، کسی سے نہ ٹوٹیں۔ آخر میں بڑے بھائی کی باری تھی۔ اس نے ایک لکڑی پر گھٹنے کا پورا زور ڈالا اور تڑاخ کی آواز آئی۔ باپ نے نصیحت کرنے کے لئے آنکھیں ایک دم کھول دیں۔ کیا دیکھتا ہے کہ بڑا بیٹا بے ہوش پڑا ہے۔ لکڑی سلامت پڑی ہے۔ آواز بیٹے کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹنے کی تھی۔ ایک لڑکے نے کہا۔ ”یہ بڈھا بہت جاہل ہے۔‘‘ دوسرے نے کہا۔ ”اڑیل ضدی۔‘‘ تیسرے نے کہا۔ ”کھوسٹ، سنکی، عقل سے پیدل، گھامڑ۔‘‘ چوتھے نے کہا۔ ”سارے بڈھے ایسے ہی ہوتے ہیں، کمبخت مرتا بھی نہیں۔‘‘ بڈھے نے اطمینان کا سانس لیا کہ بیٹوں میں کم از کم ایک بات پر تو اتفاق رائے ہوا۔ اس کے بعد آنکھیں بند کیں اور نہایت سکون سے جان دے دی۔

ابن انشاء

بشکریہ دنیا نیوز

ابن انشا : مزاح کا اچھوتا انداز

وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے پہچان گئے
ہاں ساتھ ہمارے انشا بھی، اس گھر میں تھے مہمان گئے

”کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا‘‘ کے خالق ابن انشا پر لکھوں تو کیا لکھوں۔ شیر محمد خاں نام کا ایک شخص جو 1926ء میں جالندھر میں پیدا ہوا۔ جو آزادی کے بعد پاکستان ہجرت کر گیا۔ جس نے اردو کالج کراچی سے اردو میں ایم۔ اے۔ کیا اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کے بعد اس لیے اس سے دست بردار ہو گیا کہ محقق اور اسکالر وغیرہ بننا اس کے مزاج کے منافی تھا۔ جس نے ایک خط میں مجھے لکھا تھا کہ: ”میں برنارڈ شا کا مرید ہوں جس نے لکھا تھا کہ ساری انسائیکلو پیڈیا لکھنے کی نسبت ”ایلس ان ونڈر لینڈ‘‘ کا مصنف ہونا زیادہ پسند کروں گا۔‘‘ یہ ابن انشا میرا بڑا جگری دوست تھا۔ میرا پیارا بھائی اور مجھ پر جان چھڑکنے والا۔ اس نے مجھے بڑی اپنائیت کے ساتھ خطوط لکھے اور ان خطوط میں اپنی شخصیت کو بارہا آشکار کیا۔

لاہور میں ایک چینی موچی کی دکان تھی۔ سڑک پر گزرتے ہوئے ابن انشا نے اس دکان کے شوکیس میں رکھا ہوا ایک انوکھا اور خوبصورت جوتا دیکھا۔ فوراً وہیں رک کر دکان میں داخل ہوا اور اس کے مالک سے پوچھنے لگا ”اس جوتے کے کیا دام ہیں‘‘؟ دکاندار بولا” مگر آپ اسے خرید کر کیا کیجیے گا یہ آپ کے پاؤں کا جوتا نہیں ہے‘‘۔ وہ بولا ”مگر میں تو اسے خریدنا چاہتا ہوں۔ میں اس کا ترجمہ کروں گا۔‘‘ ایک پراسرار اور انوکھی، طباع اور رومانی شخصیت ”جوتے کا ترجمہ‘‘ تو محض ان کی ”خوش طبعی‘‘ کا ایک مظاہرہ تھا مگر اس جوتے کی بدولت انہیں چینی شاعری کی تلاش ہوئی۔ طرح طرح کے مجموعے اور انتخابات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے اور ان کے منظوم ترجمے اردو میں کر ڈالے اور چینی نظموں کے نام سے ایک کتاب بھی شائع کی۔ اس کتاب میں قدیم چین کے لوک گیت ہیں۔ کنفیوشس کی نظمیں ہیں، چرواہوں کی تانیں، جوگیوں اور بیراگیوں کی خود کلامیاں اور ان کے اقوالِ دانش ہیں اور عہد جدید کے منظومات بھی۔

شخصیت کی اسی پراسراریت اور انوکھے پن کی وجہ سے وہ ایڈگر ایلن پو کو اپنا ”گرو دیو‘‘ کہتے تھے۔ ایڈگر ایلن پو کی انوکھی شخصیت اور اس کی شاعری نے سب سے پہلے ہمارے یہاں میرا جی کو اپنا دلدادہ بنایا تھا اور انہوں نے بہت پہلے پو کی شخصیت اور شاعری پر ادبی دنیا میں ایک مضمون لکھا تھا ۔ پو کے دوسرے عاشق ابن انشا تھے جنہوں نے پو کی پر اسرار کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اسے”اندھا کنواں‘‘ کے نام سے ایک مجموعے کی صورت میں شائع کیا۔ خود ابن انشا کی اپنی شاعری میں یہی پر اسراریت ، رومانیت اور نرالی فضا ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کا نام ”چاند نگر‘‘ ہے جو 1955ء میں مکتبہ اردو، لاہور سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام بھی پو کی ایک نظم سے مستعار ہے۔ ابن انشا اپنی اس رومانیت کے باوجود اپنے زمانے کے سماجی مسائل اور عوام کے دکھ درد کے ہی شاعر تھے۔

ابن انشا نئی نسل کے ان شاعروں کا سرخیل رہا جس نے پہلی بار شاعری میں ذاتی اور شخصی تجربے کی اہمیت پر زور دیا اور ترقی پسندی کے چراغ جلائے۔ پنجابی شاعری کی صنف ”سی حرفی‘‘ کو بھی میرے علم کے مطابق سب سے پہلے ابن انشا نے اپنی نظم ”امن کا آخری دن‘‘ میں برتنے کی کوشش کی۔ ابن انشا کی نظموں کی اپنی ایک فضا ہے۔ ان نظموں میں شام اور رات کے دھندلکے کو عام طور پر منظر نامے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ اور ان نظموں میں کسی گرجا کا گھڑیال بھی اکثر آتا ہے جو ہمیشہ دو ہی بجاتا ہے۔ کہیں ریل کی سیٹی بھی گونج اٹھتی ہے۔ ایک ریل کا پل بھی ہے۔ 1955ء میں ”چاند نگر‘‘ کی اشاعت اس سال کا ایک اہم ادبی واقعہ تھی۔ انشا کے مزاح کا انداز اچھوتا تھا۔ ناصر کاظمی کی ”برگ نے‘‘ بھی اسی سال شائع ہوئی۔ ابن انشا اور ناصر کاظمی دونوں سے میری ذہنی قربت دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ دوستی محض خط و کتابت تک ہی محدود تھی۔ ایک کراچی میں تھا (ابن انشا) دوسرا لاہور میں (ناصر کاظمی) اور تیسرا علی گڑھ میں (راقم الحروف) مگر نصف ملاقاتوں کے ذریعہ خوب پینگیں بڑھیں۔

ان کے مزاحیہ مضامین، بچوں کی نظمیں، غرض کہ ہر طرح کی چیزیں دیکھنے میں آئیں۔ کبھی ”چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ کے نام سے اور کبھی”ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ کے عنوان سے اپنی سیاحی کا حال لکھا۔ 1960ء کے بعد اردو شاعری کے ایوان میں بڑی چہل پہل رہی۔ جدیدیت کے میلان نے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کی۔ ہم سب اسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھے اور خوب خوب دھومیں مچائیں۔ ناصر کاظمی کا بھری جوانی میں انتقال ہو گیا۔ ان کی یاد میں لاہور سے لے کر علی گڑھ تک جلسے ہوئے۔ 1978ء کے آغاز میں جب ابن انشا ایک عارضے میں مبتلا ہو کر لندن کے ایک اسپتال میں اپنی جان جان آفرین کو سپرد کرتے ہیں تو کیا انگریزی اور کیا اردو سبھی اخباروں میں اردو کے ایک مزاح نگار کی موت کی مختصر سی خبر شائع ہوئی۔ اکیاون سال کی عمر میں وفات پانے والا البیلا شاعر ”چاند نگر‘‘ جیسے مجموعے کا خالق ایک”مزاح نگار‘‘ کی صورت میں منوں مٹی کے نیچے جا سویا۔ جب ان کی میت ہوائی جہاز کے ذریعے پاکستان لائی جارہی تھی تو ان کی یہ غزل مسافروں کو سنائی گئی”انشا جی اٹھو ، اب کوچ کرو‘‘۔ وہاں موجود ہر دوسری آنکھ اشک بار ہو گئی۔

خلیل الرحمان اعظمی

بشکریہ دنیا نیوز

استاد مرحوم, ابنِ انشا کی یادگار تحریر

استاد مرحوم نے اہلِ زبان ہونے کی وجہ سے طبیعت بھی موزوں پائی تھی اور ہر طرح کا شعر کہنے پر قادر تھے۔ اردو، فارسی میں ان کے کلام کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو غیر مطبوعہ ہونے کی وجہ سے اگلی نسلوں کے کام آئے گا۔ اس علم و فضل کے باوجود انکسار کا یہ عالم تھا کہ ایک بار اسکول میگزین میں جس کے یہ نگران تھے، ایڈیٹر نے استاد مرحوم کے متعلق یہ لکھا کہ وہ سعدی کے ہم پلہ ہیں، انہوں نے فوراً اس کی تردید کی۔ سکول میگزین کا یہ پرچہ ہمیشہ ساتھ رکھتے اور ایک ایک کو دکھاتے کہ دیکھو لوگوں کی میرے متعلق یہ رائے ہے حالانکہ من آنم کہ من دانم۔ ایڈیٹر کو بھی بلا کر سمجھایا کہ عزیزی یہ زمانہ اور طرح کا ہے۔ ایسی باتیں نہیں لکھا کرتے۔ لوگ مردہ پرست واقع ہوئے ہیں۔ حسد کے مارے جانے کیا کیا کہتے پھریں گے۔ اہل علم خصوصاً شعرا ء کے متعلق اکثر یہ سنا ہے کہ ہم عصروں اور پیشروؤں کے کمال کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں، استاد مرحوم میں یہ بات نہ تھی، بہت فراخ دل تھے۔

فرماتے، غالب اپنے زمانے کے لحاظ سے اچھا لکھتے تھے۔ میر کے بعض اشعار کی بھی تعریف کرتے۔ امیر خسرو کی ایک غزل استاد مرحوم کی زمین میں ہے۔ فرماتے، انصاف یہ ہے کہ پہلی نظر میں فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ ان میں سے کون سی (غزل) بہتر ہے۔ پھر بتاتے کہ امیر خسرو سے کہاں کہاں محاورے کی لغزش ہوئی ہے۔ اقبال ؒ کے متعلق کہتے تھے کہ سیالکوٹ میں ایسا شاعر اب تک پیدا نہ ہوا تھا۔ اس شہر کو ان کی ذات پر فخر کرنا چاہیے۔ ایک بار بتایا کہ اقبالؒ سے میری خط و کتابت بھی رہی ہے۔ دو تین خط علامہ مرحوم کو انہوں نے لکھے تھے کہ کسی کو ثالث بنا کر مجھ سے شاعری کا مقابلہ کر لیجئے۔ راقم نے پوچھا نہیں کہ ان کا جواب آیا کہ نہیں۔ استاد مرحوم کو عموماً مشاعروں میں نہیں بلایا جاتا تھا کیوں کہ سب پر چھا جاتے تھے اور اچھے اچھے شاعروں کو خفیف ہونا پڑتا۔ خود بھی نہ جاتے تھے کہ مجھ فقیر کو ان ہنگاموں سے کیا مطلب۔ البتہ جوبلی کا مشاعرہ ہوا تو ہمارے اصرار پر اس میں شریک ہوئے اور ہر چند کہ مدعو نہ تھے منتظمین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

دیوانہ کسمنڈوی، خیال گڑگانوی اور حسرت بانس بریلوی جیسے اساتذہ سٹیج پر موجود تھے، اس کے باوجود استاد مرحوم کو سب سے پہلے پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ وہ منظر اب تک راقم کی آنکھوں میں ہے کہ استاد نہایت تمکنت سے ہولے ہولے قدم اٹھاتے مائیک پر پہنچے اور ترنم سے اپنی مشہور غزل پڑھنی شروع کی ۔
ہے رشت غم اور دلِ مجبور کی گردن
ہے اپنے لئے اب یہ بڑی دور کی گردن
ہال میں سناٹا سا چھا گیا۔ لوگوں نے سانس روک لئے۔ استاد مرحوم نے داد کے لئے صاحب صدر کی طرف دیکھا لیکن وہ ابھی تشریف نہ لائے تھے، کرسیِٔ صدارت ابھی خالی پڑی تھی۔ دوسرا شعر اس سے بھی زور دار تھا۔
صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا
اور دار پہ ہے حضرتِ منصور کی گردن
دوسرا مصرع تمام نہ ہوا تھا کہ داد کا طوفان پھٹ پڑا۔ مشاعرے کی چھت اڑنا سنا ضرور تھا، دیکھنے کا اتفاق آج ہوا۔ اب تک شعراء ایک شعر میں ایک مضمون باندھتے رہے ہیں اور وہ بھی بمشکل۔ اس شعر میں استاد مرحوم نے ہر مصرع میں ایک مکمل مضمون باندھا ہے اور خوب باندھا ہے۔

لوگ سٹیج کی طرف دوڑے۔ غالباً استاد مرحوم کی پابوسی کے لئے۔ لیکن رضا کاروں نے انہیں باز رکھا۔ سٹیج پر بیٹھے استادوں نے جو یہ رنگ دیکھا تو اپنی غزلیں پھاڑ دیں اور اٹھ گئے۔ جان گئے تھے کہ اب ہمارا رنگ کیا جمے گا۔ ادھر لوگوں کے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ تیسرے شعر پر ہی فرمائش ہونے لگی مقطع پڑھیے مقطع پڑھیے۔۔۔۔ چوتھے شعر پر مجمع بے قابو ہو رہا تھا کہ صدرِ جلسہ کی سواری آگئی اور منتظمین نے بہت بہت شکریہ ادا کر کے استاد مرحوم کو بغلی دروازے کے باہر چھوڑ کر اجازت چاہی۔ اب ضمناً ایک لطیفہ سن لیجئے۔ دوسری صبح روزنامہ”پتنگ‘‘نے لکھا کہ جن استادوں نے غزلیں پھاڑ دی تھیں، وہ یہ کہتے بھی سنے گئے کہ عجب نامعقول مشاعرے میں آ گئے ہیں۔ لوگوں کی بے محابا داد کو ہوٹنگ کا نام دیا اور استاد مرحوم کے اس مصرع کو” صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا‘‘، لا علمی ، شرارت اور ”سرقہ‘‘ قرار دیا۔ پھر اس قسم کے فقروں کا کیا جواز ہے کہ ”استاد چراغ شعر نہیں پڑھ رہے تھے روئی دھن رہے تھے۔‘‘ صحیح محاورہ روئی دھننا نہیں روئی دھنکنا ہے۔ اس دن کے بعد سے مشاعرے والے استاد مرحوم کا ایسا ادب کرنے لگے کہ اگر استاد اپنی کریم النفسی سے مجبور ہو کر پیغام بھجوا دیتے کہ میں شریک ہونے کے لئے آ رہا ہوں تو وہ خود معذرت کرنے کے لئے دوڑے آتے کہ آپ کی صحت اور مصروفیات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ ہمیں (ان کے نا چیز شاگردوں کو) بھی رقعہ آ جاتا کہ معمولی مشاعرہ ہے، آپ کے لائق نہیں۔ زحمت نہ فرمائیں۔

بشکریہ دنیا نیوز

ڈاکٹر صفدر محمود : پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ

آپ ذہنی طور پر کتنے ہی تیار کیوں نہ ہوں کسی عزیز دوست یا پرانے رفیق کی رحلت کی خبر آپ کو ایک دفعہ ہلا ضرور دیتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ڈاکٹر صفدر محمود کے ضمن میں ہوا کہ اگرچہ مرحوم اور اُن کی تحریروں کے ساتھ تعارف کی عمر تو نصف صدی سے بھی کچھ زیادہ تھی مگر گزشتہ تین دہائیوں میں یہ رشتہ دوستی کی شکل میں ڈھل چکا تھا۔ اُن کا مضمون پولیٹیکل سائنس اور پیشہ تدریس اور بیوروکریسی رہا لیکن ادب سے تعلق اور تاریخِ پاکستان سے گہرا شغف ہمارے درمیان ایک ایسے پُل کی شکل اختیار کر گیا کہ صورتِ حال کچھ کچھ ’’خبر تحیّر عشق سن‘‘ والی ہو گئی اور اُن سے محبت اور اپنائیت کا رشتہ ایک اہم اثاثے کی شکل اختیار کرتا چلا گیا ۔ اُن کا آبائی تعلق کھاریاں کے ایک نواحی قصبے ’’ڈنگہ‘‘ سے تھا۔ پنجابی میں ڈنگا کا لفظ ٹیڑھے کی معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے‘ اس لیے تفننِ طبع کے طور پر احباب اُن سے اکثر یہ سوال بھی کرتے تھے کہ آپ جیسے شریف اور سیدھے آدمی کا ’’ڈنگہ‘‘ میں پیدا کیا جانا اپنی جگہ پر صنعتِ تضاد کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے وہ اُن منتخب لوگوں میں سے تھے جنہیں اپنی علمیت جھاڑنے کا سرے سے کوئی شوق نہیں ہوتا مگر وہ اُن کی تحریر و تقریر سے ہمہ وقت اپنی وسعت اور گہرائی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔

انھیں بجا طور پر یہ گِلہ تھا کہ شعر و ادب کی درمیانے درجے کی کتابوں کو اول نمبر کے علم و تحقیق کی حامل کتابوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور سنجیدگی سے تنقید و تحقیق کرنے والوں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ صحیح معنوں میں حقدار ہوتے ہیں اور دیگر ممالک کے برعکس قومی اعزازات کی تقسیم کے وقت بھی انھیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، پاکستان کی تاریخ اور تحریک پر مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے دیکھا جائے تو یقیناً ان کا کام اعلیٰ ترین اعزازات کا مستحق تھا ، میں نے انھیں زندگی بھر بہت کم بولتے اور بحث کرتے سنا ہے مگر اُن کی ہر کتاب اس بات کی شاہد ہے کہ
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعہٗ تر کی صُورت
تاریخ تو ان کا مضمون تھا ہی مگر وہ ادب کے بہت سنجیدہ اور عمدہ قاری تھے اُن کی اپنی نثر بھی بہت رواں دواں اور ہموار ہوا کرتی تھی اور وہ اُن چند محققین میں سے تھے جن کے اخباری کالم بھی بہت شوق اورتوجہ سے پڑھے جاتے تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد چند سال قبل وہ بھی ڈیفنس کے اُسی سیکٹر میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوئے جہاں میں پہلے سے مقیم تھا لیکن اُن سے زیادہ تر ملاقات جمعے کی نماز کے وقت مسجد میں ہی ہوا کرتی تھی۔

ایک دن اچانک خبر ملی کہ وہ اپنی بیگم کے ہمراہ امریکا اپنے بچوں کے پاس جا رہے ہیں کچھ عرصہ بعد میری بیگم نے جو اُن کی بیگم کی سہیلی بھی ہیں بتایا کہ وہ بغرضِ علاج امریکا ہی میں رک گئے ہیں جب کہ ان کی بیگم واپس آگئی ہیں، اس دوران میں یہی سمجھتا رہا کہ ان کی اس علالت کا تعلق عمر سے ہے اور جلد اُن سے ملاقات ہو جائے گی پھر امریکا سے کسی دوست نے بتایا کہ نہ صرف وہ بہت زیادہ بیمار ہیں بلکہ ان کی یادداشت بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے جس سے رنج میں مزید اضافہ ہوا، چند ماہ قبل اِسی حالت میں اُن کو واپس وطن لایا گیا جہاں وہ اسی ذہنی گمشدگی کے دوران خاموشی سے رخصت ہو گئے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ جس شخص کی یادداشت اپنی جگہ تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہو اُسے اپنا نام تک یاد نہ رہے۔ میرے نزدیک ڈاکٹر صفدر محمود ہمارے دور کے ایک بہت نامور تاریخ دان، مصنف اور تجزیہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت مہذب، قابلِ فخر اور قیمتی انسان بھی تھے جن کی رحلت ہمارے معاشرے کو غریب تر اور مجھے ایک پیارے دوست سے محروم کر گئی ہے ۔

گزشتہ ایک ہفتے کے دوران صحافی عبدالرحیم یوسف زئی، چلڈرن کمپلیکس کے ملازمت کے زمانے کی رفیق ڈاکٹر فائزہ اصغر اور اردو اور پشتو کی مشہور ادیبہ زیتون بانو کے علاوہ اور ایک اور بہت اچھے ہم عصر لکھاری طارق اسماعیل ساگر بھی داغِ مفارقت دے گئے ہیں، رب کریم ان سب کی روحوں کو اپنی امان میں رکھے اور انھیں بلند درجات عطا فرمائے۔ طارق بھائی سے میری ذاتی اور براہ راست ملاقات تو زیادہ نہیں تھی مگر نہ صرف میں اُن کے کام سے ہمیشہ آگاہ رہنے کی کوشش کرتا تھا بلکہ برادرم شہزاد رفیق کی فلم ’’سلاخیں‘‘ کے مکالمے لکھنے کے دوران اُن سے ایک غائبانہ سی قربت بھی رہی، اُن کی رحلت پر بہت سے احباب نے فیس بک وغیرہ پر تعزیت کے پھول بھیجے ہیں مگر مجھے سب سے زیادہ شہزاد رفیق ہی کی ایک مختصر تحریر نے متاثر کیا ہے جس کا عنوان انھوں نے ’’خشک پتوں کی طرح لوگ اُڑتے جاتے ہیں‘‘ رکھا ہے وہ لکھتے ہیں۔

الوداع طارق اسماعیل ساگر صاحب الوداع، آپ کا ناول ’’میں ایک جاسوس تھا‘‘ ایف ایس سی میں تھا جب میں نے پڑھا آپ سے تعارف و تعلق کا سبب یہ ناول تھا اور محبت شفقت اور احترام کا رشتہ قائم ہوا جس پر مجھے ناز ہے آپ ایک خاموش مجاہد تھے، آپ کے جسم پر پڑے ہوئے زخموں کے نشانات کی پوری قوم مقروض ہے اور رہے گی۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کر جنرل تک سب نے کاکول اکیڈمی جانے سے پہلے آپ کے ناول ضرور پڑھے ہوں گے مرحوم کی خدمات حساّس اداروں سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میری فلم ’’سلاخیں‘‘ کی کہانی اسکرین پلے طارق صاحب کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے اور ’’سلیوٹ ‘‘ کے ریسرچ ورک کا کریڈٹ بھی آپ کا ہے۔ بیماری سے پہلے ایک اسکرپٹ پر کام کر رہے تھے شائد قدرت کو منظور نہ تھا۔ سر آپ کو سلیوٹ۔‘‘ آخر میں ایک سلیوٹ ڈاکٹرصفدر محمود کے لیے بھی کہ میرے نزدیک تحریک و تاریخ پاکستان کا کوئی مطالعہ اُن کی کتابوں کو پڑھے بغیر ممکن اور مکمل نہیں ہو سکتا ایک شعر جو ان کی زندگی میں انھیں سنانے کا موقع نہ مل سکا اُسی پر اسی تعزیتی کالم کا اختتام کرتا ہوں یقیناً وہ اسے سن کر اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے کہ اُن کے داد دینے کا طریقہ یہی تھا۔

سرِ عام کھول کے رکھ دیے جو بھی واقعے تھے چُھپے ہوئے
نہیں وقت سا کوئی صاف گو بڑی بدلحاظ ہے ہسٹری

امجد اسلام امجد

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ڈاکٹر صفدر محمود : قائدِ اعظم کا ایک سپاہی رخصت ہو گیا

فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کی رحلت کے بعد دوسرا بڑا سانحہ ڈاکٹر صفدر محمود کی وفات ہے۔ قائد اعظم کا یہ سپاہی، یہ نظریاتی باڈی گارڈ، تحریک پاکستان کا یہ مجاہد تیرہ ستمبر کو اپنی آبائی بستی ڈنگہ ضلع گجرات میں سپرد خاک ہو گیا۔ تحریک پاکستان کے مجاہد وہ اس طرح تھے کہ اس تحریک پر آج تک برابر حملے ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود ان حملوں کا دفاع کرتے ہوئے ہمیشہ اگلی صفوں میں رہے! عرب شاعر نے کہا تھا: أضاعُونی وأیَّ فَتیً أضاعوا لیومِ کریہۃٍ وسدادِ ثَغــرِ
مجھے کھو دیا! اور جنگ کے دن کے لیے اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے کیسا زبردست جوان کھو دیا! ڈاکٹر صاحب کی وفات پر زیادہ زور اس ذکر پر دیا جا رہا ہے کہ وہ وفاقی سیکرٹری رہے اور کالم نگار! اقبال نے دربار رسالت میں فریاد کی تھی کہ انصاف فرمائیے! مجھے لوگ غزل گو سمجھ بیٹھے ہیں!
من ای میرِ امم داد از تو خواہم
مرا یاران غزل خوانی شمردند
وفاقی سیکرٹری ایک اینٹ اکھاڑیے تو نیچے سے تین نکلتے ہیں۔ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے۔ کالم نگار بھی بہت ہیں! مگر صفدر محمود مؤرخ تھے! چوٹی کے محقق! بیسیوں کتابوں کے مصنف اور کتابیں بھی ایسی کہ عرق ریزی اور مشقت کا حاصل! کئی زبانوں میں ان کے ترجمے ہوئے۔

کئی بار انہوں نے لندن جا کر انڈیا آفس کو کھنگالا۔ واشنگٹن جا کر آرکائیوز کا مطالعہ کیا۔ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ پاکستان، تاریخ و سیاست۔ مسلم لیگ کا دورِ حکومت۔ آئینِ پاکستان۔ یہ تو چند کتابوں کے عنوانات ہیں۔ ان کی تصانیف اور بھی ہیں۔ اردو میں بھی، انگریزی میں بھی۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ پاکستان، تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم کے بارے میں جو بے اصل، غلط اور جھوٹی باتیں پھیلائی گئیں یا پھیل گئیں، ڈاکٹر صاحب نے بہت محنت کر کے ان کی اصلیت کو واضح کیا۔ اس کے لیے وہ ہر اس شخصیت سے ملے جس کا قائد اعظم سے تعلق رہا یا جو واقفِ حال تھا۔ ایک ایک سورس، ایک ایک ذریعہ تلاش کیا۔ کڑی مشقت کے بعد سچ دنیا کے سامنے لائے۔ پاکستان کے کئی بدخواہ ان کی تحقیق اور ان کے لائے ہوئے سچ کا جواب نہ دے سکے۔ کچھ نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ یہ اور بات کہ جہاں جہاں نیت کا فتور تھا، وہاں ہٹ دھرمی قائم رہی! کچھ مغالطے جو عام ہیں یا عام کیے گئے اور جن کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے تحقیق کر کے حقیقت واضح کی، مندرجہ ذیل ہیں:

٭ قراردادِ پاکستان وائسرائے نے قائد اعظم کو دی اور انہوں نے مسلم لیگ کے اجلاس سے منظور کروالی۔ ٭ حلف برداری کے لیے قائد اعظم آتے ہی کرسی پر بیٹھ گئے جس پر چیف جسٹس میاں عبدالرشید نے اعتراض کیا۔ ٭ پرچم کشائی مولانا شبیر احمد عثمانی سے کروائی گئی۔ ٭ ریڈ کلف ایوارڈ اور خاص طور پر پنجاب کی تقسیم مسلم لیگ کے مطالبات کے عین مطابق تھی۔ ٭1935 ء میں قائد اعظم کی ہندوستان واپسی ایک خواب کا نتیجہ تھی۔ ٭ علامہ اقبال نے خطوط لکھ کر قائد اعظم کو لندن سے واپسی پر آمادہ کیا۔ ٭ قائد اعظم سے منسوب یہ بیان کہ پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا۔ ٭ قائد اعظم سے منسوب یہ فقرہ کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ڈال دیے گئے ہیں۔ ٭ کراچی میں ایمبولنس کی خرابی سازش تھی۔ ٭ زیارت سے لے کر کراچی آمد تک لیاقت علی خان کے حوالے سے تراشے گئے بدگمانیوں کے افسانے۔

ڈاکٹر صفدر محمود نے یہ سب مفروضے اور جھوٹ غلط ثابت کیے۔ انہوں نے دلائل کے انبار لگا دیے۔ گواہیاں پیش کیں۔ حوالے دیے۔ ریفرنسز دکھائے۔ عینی شاہدوں سے ملے۔ حلف برداری کی تقریب کی وڈیو ڈھونڈی اور دیکھی۔ یہ جو آج پوری دنیا میں تحریک پاکستان کی تاریخ کے طالب علم اور قائد اعظم کے شیدائی ڈاکٹر صفدر محمود کی وفات پر غم زدہ ہیں تو اس کا سبب مرحوم کی یہ محنت اور مشقت ہی تو ہے۔ انہوں نے تن تنہا اتنا کام کیا جتنا بڑے بڑے ادارے کرتے ہیں۔ کوئی مالی امداد ان کی پشت پر نہ تھی۔ کسی ادارے کا تعاون حاصل نہ تھا۔ ہم جیسے طالبان علم کے لیے ان کے دروازے ہمہ وقت کھلے تھے۔ جب بھی ان موضوعات پر کوئی مشکل پیش آتی، رہنمائی فرماتے۔ کتاب پاس ہوتی تو ارسال فرما دیتے‘ ورنہ بتاتے کہ کون سا حوالہ ہے اور کہاں ملے گا۔ اس کالم نگار پر ہمیشہ شفقت فرماتے اور اس قابل سمجھتے کہ کسی مسئلے پر تشویش ہو تو شیئر کریں۔

ڈاکٹر صاحب کس طرح مسئلے کی تہہ تک پہنچتے تھے، اس کی صرف ایک مثال قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے: یہ جھوٹ کچھ حلقوں نے تواتر کے ساتھ پھیلایا کہ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل جگن ناتھ آزاد کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کو کہا۔ انہوں نے ترانہ لکھا جو قائد نے منظور کیا اور پھر یہ ترانہ اٹھارہ ماہ تک گایا جاتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس جھوٹ کے رد میں عقلی اور نقلی بارہ دلائل دیے۔ ایک: قائد کی قانونی اور آئینی شخصیت کے لیے ناممکن تھا کہ کابینہ، حکومت اور ماہرین کی رائے کے بغیر ترانہ خود ہی منظور کر لیتے جبکہ انہیں اردو اور فارسی سے واجبی سا تعلق تھا۔ دو: قائد اس وقت 71 سال کے تھے۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29 برس کا ایک غیر معروف نوجوان تھا۔ لاہور میں اس کا قیام تھا اور اینٹی پاکستان اخبار ‘جئے ہند‘ میں ملازم تھا۔ دوستی تو کجا، قائد سے اس کا تعارف بھی ناممکن تھا۔ تین: پروفیسر سعید کی کتاب میں 25 اپریل 1948 تک کے قائد کے ملاقاتیوں کی مکمل لسٹ ہے۔

اس میں جگن ناتھ نام کا کوئی ملاقاتی نہیں۔ چار: انصار ناصری نے قائد کے کراچی آنے کے بعد کی مصروفیات پر ایک مبسوط کتاب لکھی ہے‘ اس میں بھی جگن ناتھ آزاد کا کوئی ذکر نہیں۔ پانچ: ڈاکٹر صفدر محمود، عطا ربانی سے‘ جو قائد کے اے ڈی سی تھے، ملے۔ یہ ملاقات کافی جدوجہد کے بعد مجید نظامی کی مدد سے ممکن ہوئی۔ عطا ربانی کا صاف سیدھا جواب تھا کہ اس نام کا کوئی شخص قائد سے ملا نہ قائد سے انہوں نے یہ نام کبھی سنا۔ چھ: جگن ناتھ آزاد نے اپنی وفات تک خود یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا۔ سات: ڈاکٹر صفدر محمود نے ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز چھان مارے۔ ان میں بھی ایسا کوئی ذکر نہیں۔ آٹھ: ڈاکٹر صاحب نے اگست 1947 کے اخبارات چھان مارے۔ جگن ناتھ کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ نو: ڈاکٹر صاحب نے خالد شیرازی سے ملاقات کی جنہوں نے اگست 1947 کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے بھی اس دعوے کی نفی کی۔

دس: ریڈیو پاکستان کے رسالہ ‘آہنگ‘ میں ایک ایک پروگرام کی تفصیل ہوتی ہے۔ اس میں بھی جگن ناتھ کے ترانے کا کوئی ذکر نہیں۔ گیارہ: جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب ”آنکھیں ترستیاں ہیں‘‘ میں صرف یہ لکھا کہ اس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ اس نے قائدِ اعظم کا ذکر کیا نہ ترانے کا۔ بارہ: ایک بھارتی سکالر منظور عالم نے جگن ناتھ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا‘ جس میں جگن ناتھ کا انٹرویو ہے جس میں انہوں نے ان مشاہیر کا ذکر کیا‘ جن سے وہ ملے۔ ان میں قائد اعظم کا ذکر نہیں، اگر ملے ہوتے تو یقیناً ذکر کرتے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہر ایشو پر اسی طرح مکمل تحقیق کی اور کوئی گوشہ تشنہ نہ چھوڑا۔ ان کی دو کتابیں ”سچ تو یہ ہے‘‘ اور ”اقبال، جناح اور پاکستان‘‘ تاریخِ پاکستان کے ہر شائق کو ضرور پڑھنی چاہئیں۔ ان کی بعض آرا سے اختلاف بھی ہے‘ مگر اس کا یہ موقع نہیں۔ خداوند قدوس ان کی لغزشوں سے درگزر کرے اور ان کی نیکیوں اور قومی خدمات کو قبول کرے

محمد اظہارالحق

بشکریہ دنیا نیوز

ڈرامے کی تاریخ اور آغا حشر

ہندوستان میں ڈرامے کی روایت قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔ اس کی ابتداء کی نشاندہی چوتھی صدی قبل مسیح سے کی جاتی ہے۔ ڈراما ہند آریائی تہذیب کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ قدیم آریائی تہذیب جب اپنے عروج پر تھی تو اس کے ساتھ سنسکرت ڈراما بھی اپنی تمام تر لطافتوں اور نزاکتوں اور اپنی مخصوص روایات کو اپنے دامن میں سمیٹے درجہ کمال کو پہنچ چکا تھا لیکن آریائی تہذیب و معاشرت کے زوال کے ساتھ ساتھ سنسکرت ڈرامے پر بھی انحطاط کے بادل چھا گئے۔ عوام نے اپنی دلچسپی اور تفریحی شوق کی تسکین کے لیے رام لیلا، کرشن لیلا اور اسی طرح کے دوسرے مذہبی، عشقیہ اور معاشرتی کھیلوں کا سہارا لیا۔ ان تماشوں اور کھیلوں کے لیے نہ کوئی مخصوص عمارت ہوتی تھی اور نہ کوئی باقاعدہ اسٹیج ہوتا تھا بلکہ یہ میدانوں یا سڑکوں پر ادا کئے جاتے تھے۔ ان کی مروّجہ صورتیں سوانگ، بہروپ اور نوٹنکی وغیرہ تھیں۔

نواب واجد علی شاہ کو اردو کا پہلا ڈرامہ نگارکہا جاتا ہے اور ان کا رہس ”رادھا کنھیّا کا قصہ‘‘ اردو ڈرامے کا نقشِ اول ہے۔ یہ رہس واجد علی شاہ کی ولی عہدی کے زمانے میں ”قیصر باغ‘‘ میں 1843ء میں بڑی شان سے کھیلا گیا۔ ایک طرف واجد علی شاہ کے رہس تھے جو ”قیصر باغ‘‘ کی چہار دیواری تک محدود تھے تو دوسری طرف تقریباً کچھ ہی عرصے بعد یعنی 1853ء میں سید آغا حسن امانت کا ”اندر سبھا‘‘ عوامی اسٹیج پر پیش کیا جا رہا تھا۔ گو تاریخی لحاظ سے واجد علی شاہ کے رہس کو امانت کے اندر سبھا پر تقدم حاصل ہے لیکن بے پناہ شہرت، ہر دلعزیزی اور قبولِ عام کی سند ”اندر سبھا‘‘ کے حصے میں آئی۔ ڈھاکہ میں “اندر سبھا” کی بدولت اردو تھیٹر نے ترویج و ترقی کی کئی منزلیں طے کیں، کئی تھیٹریکل کمپنیاں وجود میں آئیں۔

اردو ڈرامے کا دوسرا اہم مرکز بمبئی تھا۔ جس زمانے میں شمالی ہندوستان یعنی اودھ  اور اس کے مضافات میں اندر سبھا دکھایا گیا تقریباً اسی زمانے میں اندر سبھا بمبئی کے اسٹیج پر پیش کیا گیا اور اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ حافظ عبد اللہ ”لائٹ آف انڈیا تھیئڑیکل کمپنی‘‘ سے وابستہ رہے۔ یہ انڈین امپیریل تھیٹریکل کمپنی فتحپور کے مالک بھی تھے۔ حافظ عبداللہ کے ڈراموں میں ”عاشق جانباز، ہیر رانجھا، نور جہاں، حاتم طائی، لیلیٰ مجنوں، جشن پرستان‘‘ وغیرہ مشہور ہوئے۔ نظیر بیگ، حافظ عبداللہ کے شاگرد تھے۔ یہ آگرہ اور علی گڑھ کی تھیٹریکل کمپنی ”دی بے نظیر اسٹار آف انڈیا‘‘ کے مہتمم تھے۔ ان کے مندرجہ ذیل ڈرامے مقبول ہوئے۔ نل دمن، گلشن پا کد امنی عرف چندراؤلی لاثانی اور نیرنگِ عشق، حیرت انگیز عرف عشق شہزادہ بے نظیر و مہر انگیز وغیرہ۔ ایک ڈرامہ ”قتلِ نظیر‘‘ ہے جو 1910ء میں الفریڈ تھیٹریکل کمپنی نے اسٹیج کیا۔ یہ ڈرامہ پہلا ڈرامہ ہے جو کسی حقیقی واقعہ یعنی طوائف نظیر جان کے قتل پر مبنی ہے۔

جس شخصیت نے برصغیر میں ڈرامہ سٹیج میں نام کمایا ان میں آغا حشر بہت مقبول ہوئے ۔ آغا محمد شاہ نام، حشر تخلص، والد کا اسم آغا غنی شاہ تھا۔ آغا حشر کی پیدائش یکم اپریل 1879 ء کو بنارس میں ہوئی۔ حشر کی عربی و فارسی کی تعلیم گھر پر ہوئی اور انگریزی تعلیم انھوں نے جے نرائن مشن سکول بنارس میں حاصل کی۔ آغا حشر ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ نہ صرف اعلیٰ درجے کے مایہ ناز ڈرامہ نگار تھے بلکہ باکمال شاعر، شعلہ بیان مقرر اور خطیب بھی تھے۔ ان کی تعلیم تو واجبی ہی تھی مگر ذاتی مطالعے کی بناء پر انھوں نے اردو، فارسی اور ہندی میں فاضلانہ استعداد حاصل کر لی تھی۔ ان زبانوں کے علاوہ انھیں عربی، انگریزی، گجراتی اور بنگلہ کی بھی خاصی واقفیت تھی۔ انھیں مطالعے کا بے انتہا شوق تھا، یہاں تک کہ جس پڑیا میں سودا آتا تھا اس کو بھی پڑھ ڈالتے تھے۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ ان کا حافظہ بھی بلا کا تھا۔

حشر مشرقی تہذیب کے دل دادہ تھے۔ مغربی تہذیب سے انھیں سخت نفرت تھی۔ ملک کی سیاسی اور قوم کی زبوں حالی پر ان کا حسّاس دل تڑپ اٹھتا تھا۔ حب الوطنی اور حصولِ آزادی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان کے کئی ڈرامے ان نظریات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ حشر ایک طرف مشرقی اقدار کے پرستار اور دوسری طرف جذبہ اسلام سے سرشار تھے۔ ”شکریہ یورپ اور موجِ زمزم‘‘ ان کی وہ بے مثال نظمیں ہیں جن کا ایک ایک لفظ اسلام سے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔ انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے جلسوں اور بمبئی کی مجالسِ مناظرہ میں روح پرور تقریروں کی بدولت حشر سامعین کے دلوں پر چھا جاتے تھے۔ انھوں نے ”آفتابِ محبت‘‘ کے نام سے اپنا پہلا ڈرامہ لکھا۔ گویا ان کی ڈرامہ نگاری کے سفر کا یہ آغاز تھا۔ حشر نے کمپنی کے مالک کو جب اپنا یہ ڈرامہ دکھایا تو اس نے اْسے اسٹیج کرنے سے انکار کر دیا۔ مالک کے رویے اور اس کے انکار کا ردِ عمل حشر پر یہ ہوا کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی ڈرامہ نگاری کے لیے وقف کر دی اور کچھ ہی عرصے بعد وہ اسٹیج کی دنیا پر چھا گئے۔

حشر کا یہ پہلا ڈرامہ، اسٹیج تو نہ ہو سکا لیکن ”بنارس کے جواہر اکسیر کے مالک عبد الکریم خاں عرف بسم اللہ خاں نے ساٹھ روپے میں خرید لیا اور اپنے پریس میں چھاپ ڈالا۔ سال طباعت 1897ء ہے۔ اس زمانے میں شرفا ڈرامہ دیکھنا پسند کرتے تھے نہ اس کے فن کو سراہتے تھے بلکہ اس میں شریک ہونا بھی باعثِ عار سمجھتے تھے۔ ڈرامے کو ادبی اور علمی کام نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے حشر اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے لیے بنارس چھوڑ کر بمبئی چلے گئے۔ بمبئی میں کاؤس جی کھٹاؤ نے 35 روپے ماہانہ پر آغا صاحب کو اپنی کمپنی میں ملازم رکھ لیا۔ یہ آغا حشر کی تمثیل نگاری کا سنگِ بنیاد تھا۔ حشر کے ڈرامے پارسی اسٹیج پر عرصہ دراز تک کھیلے جاتے رہے جس سے حشر کی شہرت میں چار چاند لگ گئے اور کمپنیوں کو بھی خوب مالی فائدہ ہوا۔ 1913ء میں لاہو رمیں اپنی کمپنی”انڈین شیکسپیر تھیٹریکل کمپنی‘‘ کے نام سے بنائی لیکن کچھ عرصے بعد یہ کمپنی بند ہو گئی۔

آغا حشر بیوی کے انتقال کے بعد کلکتہ آگئے۔ کلکتہ میں میڈن تھیٹرز میں حشر کے کامیاب ڈرامے ہوئے۔ یہ حشر کے دور کا عروج تھا۔ 1928ء میں جب کمپنی امرتسر آئی تو آغا حشر کے ڈراموں ”آنکھ کا نشہ‘‘، ترکی حور اور ”یہودی کی لڑکی‘‘ نے ایک حشر برپا کر دیا۔ آغا صاحب نے ”شیریں فرہاد‘‘ کے بعد ”عور ت کا پیار‘‘ لکھ کر فلموں میں قابل قدر اضافہ کیا۔ آغا حشر 32 سال تک ڈرامے کی خدمت کرتے رہے انھوں نے بیک وقت اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں ڈرامے لکھے ۔ حشر نے اپنے کئی ڈراموں کے پلاٹ شیکسپیر اور دوسرے مغربی مصنفین کے ڈراموں سے اخذ کیے۔ لطیفہ گوئی اور بذلہ سنجی میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ ان کا کما ل یہ تھا کہ لطیفوں اور چٹکلوں میں خشک سے خشک بحث بھی اس طرح کرتے کہ سننے والا متاثر ہو جاتا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کا شیوہ تھا۔ حشر کی آخری عمر لاہور میں گزری۔ وہ زندگی کے آخری دنوں میں بیمار رہے۔ وہ اپنے ڈرامے بھیشم پر تگیا (بھیشم پتاما) کو فلمانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ 28 اپریل 1935 ء کو پیغامِ اجل آ پہنچا۔ لاہور میں قبرستان میانی صاحب میں سپردِ خاک کیے گئے۔

فضہ پروین

بشکریہ دنیا نیوز

اردو ادب کے ماتھے کے جھومر اشفاق احمد

اردو ادب کی تاریخ اشفاق احمد کا تذکرہ کئے بغیر مکمل نہیں ہوتی، علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے بھی نوازا۔ اردو ادب کے ماتھے کے جھومر اشفاق احمد ہندوستان کے شہر ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاوں خان پور میں 22 اگست 1925ء کو پیدا ہوئے۔ اشفاق احمد بیک وقت افسانہ نگار، ڈراما نویس، ناول نگار، مترجم اور براڈ کاسٹر تھے۔ ان کی ادبی تخلیقات شاہکار کا درجہ رکھتی تھیں۔ اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا ًبعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے، 1953 میں ان کا افسانہ ’’گڈریا‘‘ ان کی شہرت کا باعث بنا۔ نامور ادیب نے دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیئے، وہ 1968 میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور1989 تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔

ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر، کھیل کہانی ، ایک محبت سو ڈرامے ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا عوام میں بہت مقبول ہوئیں- 1965 سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور ذومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور 41 سال تک چلتا رہا۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے بھی نوازا۔ صوفی مزاج کے حامل اشفاق احمد 7 ستمبر 2004ء کو لاہور میں وفات پا گئے اور ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز