ناصر کاظمی ایک شاعر کا دل لے کر اس دنیا میں آئے

آٹھ دسمبر 1925 کو امبالہ میں پیدا ہونے والے سید ناصر کاظمی ایک شاعر کا دل لے کر اس دنیا میں آئے تھے، ان کے تخلیقی سفرکی ابتدا زمانہ طالب علمی کے دوران ہی ہو گئی تھی۔ وہ شاعری کے ساتھ صحافت اور ریڈیو پاکستان سے بھی منسلک رہے۔ قیام پاکستان کے دوران ہونے والے فسادات اور سقوط ڈھاکا نے ان کی حساس طبیعت پر گہرے اثرات مرتب کئے جو ان کے اشعار میں بخوبی نظر آتے ہیں ناصر کاظمی نے غزل میں چھوٹی بحر کی شاعری کی روایت کو پروان چڑھایا، ان کی شاعری میں شدت اور کرختگی نہیں بلکہ احساس کی ایک دھیمی جھلک ہے جو روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔

ناصر نے جو دکھ بیان کیے ہیں وہ سارے دکھ ہمارے جدید دور کے دکھ ہی ہیں، ناصر نے استعارے لفظیات کے پیمانے عشقیہ رکھے لیکن اس کے باطن میں اسے ہم آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں۔ جب ان کے اشعار سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتے ہیں تو ایک خوش گوار احساس دلوں کوچھو جاتا ہے۔ ناصر کاظمی 1972 میں معدے کے کینسر میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کے الفاظ آج بھی ہر سو خوشبو پھیلا رہے ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

مانا کہ مشتِ خاک سے بڑھ کر نہیں ہوں میں

مانا کہ مشتِ خاک سے بڑھ کر نہیں ہوں میں
لیکن ہوا کے رحم و کرم پر نہیں ہوں میں

انسان ہوں، دھڑکتے ہوئے دل پہ ہاتھ رکھ
یوں ڈوب کر نہ دیکھ سمندر نہیں ہوں میں

چہرے پہ مل رہا ہوں سیاہی نصیب کی
آئینہ ہاتھ میں ہے سکندر نہیں ہوں میں

وہ لہر ہوں جو پیاس بجھائے زمین کی
چمکے جو آسماں پہ وہ پتھر نہیں ہوں میں

غالب تری زمین میں لکھی تو ہے غزل
تیرے قدِ سخن کے برابر نہیں ہوں میں

لفظوں نے پی لیا ہے مظفر مرا لہو
ہنگامہء صدا ہوں، سخن ور نہیں ہوں میں

مظفر وارثی

کہ حَرَکَت تیز تَر ہے اَور سَفَر آہِستَہ آہِستَہ

اُگا سَبزہ دَر و دِیوار پر آہِستَہ آہِستَہ
ہُوا خالی صداؤں سے نَگَر آہِستَہ آہِستَہ

گِھرا بادَل خموشی سے خَزاں آثار باغوں پر
ہِلے ٹَھنڈی ہَواؤں میں شَجَر آہِستَہ آہِستَہ

بہت ہی سُست تھا مَنظر لَہُو کے رَنگ لانے کا
نِشاں آخِر ہُوا یہ سُرخ تَر آہِستَہ آہِستَہ

چَمَک زَر کی اُسے آخِر مکانِ خاک میں لائی
بنایا سانپ نے جِسموں میں گھر آہِستَہ آہِستَہ

مِرے باہر فصِیلیں تِھیں غُبار خاک و باراں کی
مِلی مُجھ کو تِرے غَم کی خَبَر آہِستَہ آہِستَہ

منیرؔ اِس مُلک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حَرَکَت تیز تَر ہے اَور سَفَر آہِستَہ آہِستَہ

مُنِیرؔ نیازی

صدا ہُوں اَپنے پیار کی جہاں سے بے نیاز ہُوں

صدا ہُوں اَپنے پیار کی جہاں سے بے نیاز ہُوں
کسی پہ جو نہ کُھل سکے وہ زِندَگی کا راز ہُوں

رَچے ہیں میرے زَمزَمے ہَواؤں میں گھٹاؤں میں
میرے گَلے کا نُور ہے گُھلا ہُوا فضاؤں میں

کہُوں تو چاندنی ہُوں مَیں چِھڑوں تَو ایک ساز ہُوں
کِسی پہ جو نہ کُھل سکے وہ زِندَگی کا راز ہُوں

سُنے اَگر مِری صدا تَو چَلتے کارواں رُکیں
بُھلا کے اَپنی گردِشوں کو سات آسماں رُکیں

مَیں حُسن کا غُرُور ہُوں مَیں دِلبَری کا راز ہُوں
کِسی پہ جو نہ کُھل سکے وہ زِندَگی کا راز ہُوں

صدا ہوں اَپنے پیار کی

قتیلؔ شفائ

جِس نے مِرے دِل کو درد دِیا…اُس شکل کو مَیں نے بُھلایا نہیں

جِس نے مِرے دِل کو درد دِیا
اُس شکل کو مَیں نے بُھلایا نہیں

اِک رات کِسی برکھا رُت کی
کبھی دِل سے ہمارے مِٹ نہ سکی

بادَل میں جو چاہ کا پُھول کھِلا
وہ دُھوپ میں بھی کُمھلایا نہیں

جِس نے مِرے دِل کو درد دِیا
اُس شکل کو مَیں نے بُھلایا نہیں

کَجرے سے سَجی پیاسی آنکھیں
ہر دوار سے دَرشن کو جھانکیں

پر جِس کو ڈُھونڈھتے مَیں ہارا
اُس رُوپ نے دَرَس دِکھایا نہیں

جِس نے مِرے دِل کو درد دِیا
اُس شکل کو مَیں نے بُھلایا نہیں

ہر راہ پہ سُندر نار کھڑی
چاہت کے گیت سُناتی رہی

جِس کے کارن میں کَوی بنا
وہ گیت کِسی نے سُنایا نہیں

جِس نے مِرے دِل کو درد دِیا
اُس شکل کو مَیں نے بُھلایا نہیں

منیرؔ نیازی

سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

مغرور نہ ہو تلواروں پر، مت پھول بھروسے ڈھالوں کے
سب پنا توڑ کے بھاگیں گے ، منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے

کیا ڈبے ہیروں موتی کے ، کیا ڈھیر خزانے مالوں کے
کیا بقچے تاش مشجر کے ، کیا تختے شال دو شالوں کے

کیا سخت مکاں بنواتا ہے ، کھم تیرے بدن کا ہے پولا
تو اونچے کوٹ اٹھاتا ہے ، واں گور گڑھے نے منہ کھولا

کیا رینی، خندق، رند، بڑے، کیا برج ، کنگورا، انمولا
گڑھ ، کوٹ ، رہکلہ ، توپ ، قلعہ ، کیا شیشہ ، دارو اور گولا

سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

نظیر اکبرآبادی

مولانا حالیؔ : ایک ہمہ جہت شخصیت

شعر و ادب سے شغف رکھنا یا شاعری میں نام پیدا کرنا کسی طبقے یا ذات سے مخصوص نہیں۔ اسی طرح کسی ہمہ جہت شخصیت کو عرصہ ہنر میں داخل ہونے یا بحیثیت نثر نگار مختلف اصناف نثر میں کمالات دکھانے سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس ہنر کی بدولت آدمی کا اعتبار بڑھتا ہے اور وہ عصری تقاضوں سے بہرہ ور ہونے کے نتیجے میں تعمیری سوچ اور لفظ کی قوت کا ادراک رکھنے کا ثبوت اس طرح فراہم کرتا ہے کہ وہ بحیثیت شاعر‘ نقاد‘ سوانح نگار یا مصلح معاشرتی ضرورت بن کر ابھرتا ہے۔ وہ پاکیزہ جذبوں اور خوابوں کو مروجہ اصناف میں بے کم و کاست اپنے عہد سے عہد مستقبل کے قاری تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ کے زمانے کا مسلمان بے یقینی کی اذیت میں مبتلا ہو چکا تھا‘ اس کرۂ ارض پر جسے جنوبی ایشیا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ مسلمان کی مثال ایک نو گرفتار پرندے کی سی تھی جو سات سمندر پار سے آئے سفید فام شکاری کے ہاتھوں زیردام آیا‘ یہ پرندہ اسیر قفس ہوا۔

غالبؔ نے اپنے شاگرد عزیز مولانا حالیؔ کو مشورہ دیا کہ شعر نہیں کہو گے تو خود پر ظلم کروں گے۔ یہ مشورہ حالیؔ کی شخصیت اور فن میں ایسا نکھار پیدا کرنے کا سبب بنا کہ ”مدوجزر اسلام‘‘ کی تخلیق میں تاریخی شواہد کے ساتھ سادگی اور پرکاری کا معجزہ دلوں کو تسخیر کرنے لگا‘ بظاہر مسدس حالیؔ جیسا کارنامہ سرسید کی فرمائش پر انجام پایا اور سرسید نے اپنی بخشش کا جواز ڈھونڈ لیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالیؔ کے دل میں ایک ایسا گھائو تھا جو مسدس کی تخلیق میں کام آیا۔ مسدس حالیؔ کی اشاعت سے اشاعتی اداروں نے لاکھوں کمایا مگر مولانا حالی نے قناعت پسندی کو شعار زندگی بنا کر یہ ثابت کیا کہ ضروریات زندگی سے زیادہ اعلیٰ مقصد زندگی کو عزیز رکھنا چاہیے۔ مولانا میں قناعت کے ساتھ عجز و انکسار کا جذبہ ان کی شخصیت کی دلکشی میں نمایاں اضافہ کرنے کا موجب ٹھہرا‘ ان کی خاکساری دوسرے ہم عصر اہل قلم کو سربلند کرنے میں صرف ہو گئی۔

حالیؔ کو بحیثیت نقاد اپنی اصلاح پسندی اور معتبر حوالوں کے باعث اردو زبان و ادب میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ تنقیدی سرمائے میں اب تک جتنا اضافہ ہو اس کا نقطہ آغاز مولانا حالیؔ کے مقدمے کی صورت میں ہمیشہ ہمارے سامنے رہے گا۔ حالیؔ انگریزی زبان سیکھنے میں اپنے ہم عصر یا بعد میں آنے والے اہل قلم سے پیچھے رہے لیکن لاہور میں قیام کے دوران میں انہوں نے تراجم سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور بالواسطہ انگریزی ادب سے روشناس ہوئے۔ ان کی وضع داری کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ ان کی تحریر کتابت کے لیے بھیجی گئی جس میں منبر کی بجائے حالیؔ نے ممبر ممبر لکھا ہوا تھا۔ کاتب قدرے پریشان ہوا اور صحیح لفظ‘ م۔ن۔ب۔ر کتابت کی۔ مولانا سے ایک مجلس میں ملاقات ہوئی‘ کاتب نے رازدارانہ انداز میں اپنی یہ بات ان کے گوش گزار کی‘ مولانا حالیؔ نے کاتب کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے اور کاتب کا شکریہ ادا کیا۔ وہ کاتب جب اور جہاں ملتا مولانا حالیؔ دوستوں کو بتاتے کہ یہ میرے محسن ہیں‘ انہوں نے مجھے میری غلطی پر نا صرف آگاہ کیا بلکہ اسے درست بھی کیا۔

مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ”حیات جاوید‘ یادگار غالب‘ حیات سعدی اور مقدمہ شعر و شاعری‘‘ سے جو شہرت پائی اس سے کہیں زیادہ ”مسدس حالی‘‘ ان کی شہرت کا سبب قرار پائی‘ ان کی غزلیں اور نظمیں بھی بلند پایہ اور آفاقی سچائیوں کی مظہر ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ شعر و ادب تو انسانی زندگی کا ایک ایسا سرچشمہ ہے جو انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے انسان کی چند بنیادی ضرورتوں کی اسی طرح سیرابی کرتا ہے جس طرح علوم نافعہ اور فنون مفیدہ اجتماع کے چند عملی شعبہ ہائے زندگی کو سیراب و شاداب کرتے ہیں‘ ادب تخیل کی بیکار جولانی کا نام نہیں بلکہ اس کا صحیح عمل انسانی شخصیت کی تکمیل اور انسانی اجتماع کی خدمت ہے۔ اس اعتبار سے مولانا حالیؔ نے برصغیر پاک وہند کے مسلم معاشرے کے افراد کی خدمت کی ہے۔

وہ نہایت مخلص‘ پروقار اور دیدہ بیدار صاحب قلم تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد مسلمانوں کی مضمحل قوت کا علاج کرنا تھا وہ ایک کامیاب چارہ گر ثابت ہوئے۔ مسلمانوں کے لیے بیداری کا سامان حالیؔ نے کیا اور بعد میں شاعر مشرق نے اس پیغام بیداری کو عام کیا۔ مولانا حالیؔ کی بہترین تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا اور یہ جاننا کہ معیاری معتبر اور اعلیٰ پائے کے ادب میں تاثیر کا وصف خلوص اور صداقت کی بدولت پیدا ہوتا ہے یقینا مولانا حالیؔ کے ہاں خلوص اور صداقت بدرجہ اتم موجود ہے یہ تمام عناصر ادب پر اثر انداز ہوتے ہیں اور جدید رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا حالی کی تخلیقات جدید رجحانات اور نئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ صحت مند ادبی روایات کی بازیافت کا وسیلہ بھی ثابت ہوئیں۔ موجودہ عہد میں دینی مابعد الطبیعیات کا سب سے زیادہ متحرک اور فعال ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی بنیاد پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔

کسی قوم کی تہذیب‘ تہذیبی اقدار اور روایات ادبی سرمائے کی صورت میں محفوظ رہتی ہیں‘ آج بھی سرسید‘ غالبؔ‘ شبلی اور محمد حسین آزادؔ وہ ارکان خمسہ ہیں جن کے بغیر اردو ادب کا مطالعہ ادھورا اور ناقص کہلائے گا‘ ان میں مولانا حالیؔ کی نثر اور نظم کی بدولت مستقبل کا ادب پروان چڑھا اور جدید دور میں حالیؔ اپنی فکر اور زبان دونوں اعتبار سے صالح تہذیبی اقدار کے تحفظ اور تسلسل کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ وہ اپنی قوت متخیلہ یا قوت مدرکہ کے علاوہ قوت ممیزہ کی بدولت اپنے فن اور مقصدیت میں حسین امتزاج کو برقرار اور اپنی تخلیق کو قاری کے معیار فکرونظر سے ہم آہنگ رکھنا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی اصلاح شعر کی تحریک سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر اسے اہمیت نہ دینا اور ان کی بات کو مذاق میں اڑا دینا اپنے اندر کے خلا کا اقرار کرنا ہے۔

حسن عسکری کاظمی

اکبر الٰہ آبادی : جن سے مسجد گونجتی تھی وہ مسلماں اب کہاں

انسانی جذبات کی ترجمان ہونے کے باعث شاعری تمام فنون لطیفہ میں ہمیشہ سرفہرست اور سب سے مقبول و معتبر قرار پائی ہے۔ درحقیقت شعر انسان کی داخلی کیفیات واحساسات کی ترسیل کا سب سے بڑا اور اظہار کا سب سے طاقتور اور جادو اثر ذریعہ ہے۔ چنانچہ ایک اچھا شعر شاعر کی زبان یا نوک نظم سے نکلتے ہی سامع اور قاری کے قلب و ذہن میں تیر بہ ہدف کی طرح تیزی سے جا کر پیوست ہو جاتا ہے۔ اچھا شعر اپنے ماحولیاتی اثاثوں کا امین بھی ہوتا ہے۔ انگریزی زبان کے مایہ ناز شاعر جون کیٹس نے حسین شہ پارے کو لازوال مسرت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ خوبصورتی کی خوشی کی بات ہمیشہ  کے لئے۔ اس کا یہ قول اعلیٰ شاعری پر بھی اسی طرح حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ جون کیٹس کو اگر انگریزی شاعری کا میر کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ اس حوالے سے میر صاحب کا یہ مشہور دعویٰ یاد آرہا ہے کہ ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔‘‘ گزشتہ نومبر کا مہینہ کئی حوالوں سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا جس میں حالات حاضرہ کو غلبہ حاصل رہنے کی وجہ سے صرف 9 نومبر کی تاریخ کی اہمیت بوجہ یوم ولادت علامہ اقبال کا تذکرہ تو شامل ہو گیا لیکن علامہ ہی کے دوش بہ دوش ہم عصر لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کو ان کے یوم ولادت مورخہ 16 نومبر کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرنا ممکن نہ ہو سکا، گویا

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا

اکبر کا پورا نام سید اکبر حسین رضوی تھا اور وہ 16 نومبر 1846 کو موضع بارہ ضلع الٰہ آباد (یو۔پی) میں پیدا ہوئے۔ ہندوتوا کے پرچارک بھارت کے موجودہ حکمرانوں نے الٰہ آباد کا نام تبدیل کر کے پریاگ رکھ دیا ہے۔ چنانچہ اگر آج اکبر زندہ ہوتے تو انھیں اپنے نام کے آخر میں الٰہ آبادی کی بجائے پریاگی کا لاحقہ لگانا پڑتا۔ اور یوں وہ اکبر پریاگی کہلاتے۔ اکبر نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سید تفضل حسین رضوی سے حاصل کی جو نائب تحصیل دار تھے۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز عرض نویس کی حیثیت سے کیا اور پھر نائب تحصیل دار ہوئے اور ترقی کرتے کرتے 1894 میں سیشن جج کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو گئے۔ لیکن 1903 میں صحت کی خرابی کے باعث انھوں نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی اور شاعری کی آبیاری کرتے ہوئے عملی زندگی اختیار کر لی۔

مرزا اسداللہ خاں کو اگرچہ اپنے آبا کے پیشرو سپہ گری پر ہی ناز تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھیں جو غیر معمولی اور لافانی شہرت حاصل ہوئی وہ شاعری ہی کی بدولت حاصل ہوئی۔ یہی بات علامہ اقبال پر بھی صادق آتی ہے اور جوں کی توں اکبر الٰہ آبادی پر بھی۔ اگر اکبر محض جج ہوتے تو اپنی زندگی ہی میں فراموش کر دیے جاتے۔ یہ شاعری ہی کا کرشمہ ہے کہ انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا کر لافانی بنا دیا۔ اگرچہ غزل گوئی ان کا مزاج نہیں تھا مگر اقبال کی طرح روایت کی پیروی میں اکبر کو بھی اپنی شاعری کی شروعات غزل گوئی سے ہی کرنا پڑی جس کا انھوں نے حق ادا کر دیا۔ لیکن ان کا اصل میدان طنز و مزاح تھا جہاں ان کی شاعری کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ انھوں نے اپنے تیکھے طنزیہ اور مزاحیہ اشعار سے وہ زبردست کام لیا جو بڑے بڑے مصلح اور واعظ اپنی تقریروں اور مواعظ سے نہ لے سکے۔ اقبال کی طرح مشرقی تہذیب پر مغربی تہذیب کا غلبہ انھیں ذرا بھی گوارا نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ

راہ مغرب میں یہ لڑکے لٹ گئے
واں نہ پہنچے اور ہم سے چھٹ گئے

اکبر ایسی تعلیم کے سخت مخالف تھے جو بھاری نوجوان نسل کو مشرقی تہذیب سے اس حد تک بیگانہ کر دے کہ وہ ’’کوا چلا تھا ہنس کی چال مگر اپنی ہی چال بھول گیا‘‘ والی ضرب المثل کے مصداق اپنے بزرگوں کا ادب و احترام چھوڑ کر انھیں تضحیک و تنقید کا ہدف بنانے لگے۔ اس حوالے سے وہ دو ٹوک کہتے ہیں

ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

اکبر نے زندگی کے کسی بھی غلط پہلو کو اپنی تیکھی تنقید سے نہیں بخشا۔ مذہب، تعلیم، اخلاقیات، تہذیب و تمدن اور سیاست و معاشرت سمیت سبھی پر انھوں نے ناقدانہ نظر ڈالی ہے اور تنقید کے تیز نشتر چبھوئے ہیں۔ وہ ایک جانب شیخ و واعظ پر طنز کرتے ہیں تو دوسری جانب ہماری نئی نسل کی غلط روش پر زبردست چوٹ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نہ مسٹر کو بخشتے ہیں اور نہ ہی مولانا کو۔ وہ مذہب کے نام پر ریاکاری کے سخت مخالف ہیں۔ وہ محض شکم پروری کے لیے تعلیم کے حصول اور استعمال کو جائز نہیں سمجھتے۔ اس حوالے سے ان کے درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں اور ان کی جرأت اظہار اور انداز بیان کی داد دیں۔

چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخو مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا

چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی‘ کلرکی کر‘ خوشی سے پھول جا

اکبر حسنِ مستور کی نمائش اور بے حجابی کے سخت مخالف تھے۔ انھیں ایسی تعلیم و طرز معاشرت سے سخت چڑ تھی جو عورت کی ذہنیت کو بے نقاب کر کے اسے سبھا کی پری بنا دے۔ وہ تعلیم نسواں کے نہیں ایسی تعلیم کے خلاف تھے جہاں عورت کی پردہ پوشی برقرار اور محفوظ نہ رہ سکے۔ وہ کہتے ہیں

جاتی ہے اسکول میں لڑکی تو کچھ حاصل کرے
کیا ہوا حاصل جو بس بے باک بن کر رہ گئی

اکبر کو جوہر نسواں کی عریانی کسی صورت اور کسی طور بھی گوارا نہیں۔ خواہ کوئی انھیں قدامت اور رجعت پسند ہونے کا طعنہ کیوں نہ دے۔ انھوں نے عورت کی بے پردگی کے خلاف کھلم کھلا جہاد کیا۔ اس حوالے سے ان کے یہ اشعار پیش ہیں

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

اکبر کی شاعری میں اخلاقیات کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ انھوں نے اپنے مزاحیہ کلام میں مسلمانوں کی اخلاقی پستی پر، انھیں ان کے زوال کے اسباب کا احساس دلا کر حالی و اقبال کی طرح خواب غفلت سے بیدار کرنے کی دردمندانہ کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے

عاجلانہ کر کے سجدے چل دیے گودام کو
جن سے مسجد گونجتی تھی وہ مسلماں اب کہاں

نئے مولوی برسر جوش ہیں
جو پیر طریقت ہیں خاموش ہیں

اختلافوں کے مہیا ہیں جب امکاں اتنے
متفق ہو نہیں سکتے ہیں مسلماں اتنے

دین و مذہب کے حوالے سے اکبر بحث و مباحث میں الجھنے کو سعی لاحاصل سمجھتے تھے۔ وہ اپنے مشاہدے سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں

ان کی طویل نظم بعنوان ’’شریعت و طریقت‘‘ ان کی تفہیمی طبیعت و صلاحیت کا شاہکار اور آئینہ دار ہے جس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے بہ آسانی و بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی جیسے عالم و فاضل اہل قلم اور دانشور نے اس نظم کو الہامی قرار دیا ہے۔

سنو دو ہی لفظوں میں مجھ سے یہ راز
شریعت وضو ہے طریقت نماز

طریقت شریعت کی تکمیل ہے
شریعت عبادت کی تکمیل ہے

علامہ اقبال کے فلسفہ ’’خودی‘‘ کے حوالے سے اکبر الٰہ آبادی کا یہ شاعرانہ تبصرہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں

ادبار بے خودی سے جو سازش میں مست ہے
اقبال اب خودی کی سفارش میں مست ہے

کار جہاں خدا کے ارادوں کا ہے مطیع
ہر ایک لیکن اپنی ہی خواہش میں مست ہے

اقبال اپنے بس کا نہیں کیا کرے کوئی
اکبر فقط دعائے گزارش میں مست ہے

اکبر الٰہ آبادی اردو زبان کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے انگریزی الفاظ کو اردو کے سانچے میں ڈھال کر ایک نئی طرز کی بنیاد رکھی جس سے آج تک استفادہ کیا جا رہا ہے۔ وہ بامقصد اور خالص مزاحیہ شاعری کے میر کاررواں ہیں۔ اگرچہ اکبر اپنی شاعری میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی سے مخاطب ہوئے لیکن ان کا روئے سخن زیادہ تر مسلمانوں ہی کی طرف رہا۔ جس کا اندازہ ان کی خدا پرستی اور حبیب خدا حضرت محمدؐ کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں

خوف حق الفت احمدؐ کو نہ چھوڑ اے اکبر
منحصر ہے انھیں دو لفظوں پہ سارا سلام

شاعری اکبر کی شناخت اور اوڑھنا بچھونا تھی۔ وہ اگر کچھ اور نہ ہوتے تو بھی شاعر ضرور ہوتے ۔ ان کے بقول

بے کار شب کو یوں سر بستر پڑا نہ رہ
اکبر جو تجھ کو نیند نہ آئے تو شعر کہہ

شکیل فاروقی

بشکریہ ایکسپریس نیوز

جو اس ماحول میں سچ بولتا ہے، لاپتا ہے

سفر صحرائی طوفاں میں گھرا ہے، لاپتا ہے
بشر اپنی ڈگر سے ہٹ گیا ہے، لاپتا ہے

طویل اک راستہ جس پر دھویں کا سلسلہ ہے
وہاں حد نظر جو فاصلہ ہے، لاپتا ہے

نظر دوڑائو تو اک دوڑ ہے جو بے، اماں ہے
وہ اک ٹھہرائو سے جو واسطہ ہے، لاپتا ہے

ہجوم اک منتشر ریوڑ کی طرح چل رہا ہے
کہ ان میں سمت کا جو سوچتا ہے، لاپتا ہے

وہ جن کی روح جڑ سے مر چکی ہے پھر رہے ہیں
جو خود میں دفن ہو کر جی اُٹھا ہے، لاپتا ہے

دعا امراء کی بر آتی ہے مانگے سے بھی پہلے
زمیں پر جو غریبوں کا خدا ہے، لاپتا ہے

جہل بازار میں سب جھوٹ کے گاہک ہیں ثاقبؔ
جو اس ماحول میں سچ بولتا ہے، لاپتا ہے

عمران ثاقب

جب جون ایلیا جذبات پر قابو نہ رکھ سکے

اپنی راہ کے تنہا مسافر دنیائے اردو ادب میں نمایاں حیثیت رکھنے والے بہترین شاعر، فلسفی جون ایلیا کی آواز اُن کے چاہنے والوں کے کانوں کو بھلی لگتی ہے۔ اُن کے مشاعروں کی ویڈیوز آج بھی دیکھی اور پسند کی جاتی ہیں۔ ایک مشاعرے میں جون ایلیا غزل پڑھتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ’پڑھا نہیں جا رہا‘ کہہ کر مشاعرے سے چل دیئے۔

اس مشاعرے میں جون اپنی غزل کا شعر

 مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر، بھلا چکی ہو کیا

مکمل نہ کر سکے اور ’یکسر‘ کے بعد مشاعرے سے اٹھ کر چل دیئے۔
ایک اور مشاعرے میں بھی جون ایلیا شعر پڑھتے پڑھتے رو دیئے۔ انہوں نے اپنا شعر

اسکی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئےعمر گزار دی گئی

مکمل کیا اور مشاعرے کے تمام حاضرین کے سامنے رو پڑے۔ اپنے جذباتی انداز بیان کی وجہ سے جون اپنا کلام سناتے ہوئے اکثر رو پڑتے تھے۔ جون ایلیا کے مطبوعہ شعری مجموعوں کے نام شاید ، یعنی ، گمان ، لیکن، گویا اور فرنود ہیں۔

ادبی حلقوں میں جون ایلیا اپنی نوعیت کے منفرد شاعر تھے۔ خوبصورت اور جذبات میں گندھے لفظوں کے شاعر جون ایلیا کا سحر آج بھی اُن کے مداحوں پر طاری ہے اور ان کی بے خودی اور منفرد لہجہ بے شمار لوگوں کو یاد ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ